کتاب: آفات نظر اور ان کا علاج - صفحہ 55
خود گاؤں کی عورتوں کو آپس میں باتیں کرتے سنا کہ سید بادشاہ کے ساتھی یا تو خلقاً خواہشات نفسی سے محروم ہیں یا اولیاء ہیں۔پن چکیوں پر آٹا پسوانے آتے ہیں لیکن کیا مجال آج تک کسی غازی کی نگاہ عورت کی طرف اٹھی ہو۔‘‘(سید احمد شہید: ص۴۴۳)
ابھی کل کی بات ہے،حضرت مولانا محمد ابر اہیم میر سیا لکوٹی رحمہ اللہ کے علم وفضل سے سبھی واقف ہیں مولانا محمد عبد اللہ صاحب آف بورے والا مدظلہ نے ایک بار ذکر کیا کہ جھنگ شہر کی جامع مسجد اہل حدیث میں سالانہ تبلیغی کانفرنس تھی۔مولانا سیالکوٹی بھی مدعو تھے۔ تقریر کے لئے اسٹیج پر تشریف لائے تو خطبہ کے دوران سامنے برآمد ے کی چھت پر عورتوں کو دیکھ کر پگڑی کے ایک بند کو آنکھوں پر ڈال لیا اور یوں ہی پوری تقریر کی۔تقریر سے فارغ ہوکر انتظامیہ کے ساتھ جب مجلس میں بیٹھے تو فرمایا: میں جلسہ کو خراب کرنا نہیں چاہتا تھا۔اسی وقت عورتوں کو وہاں سے اٹھانے کا کہتا تو آپ کے لئے مشکلا ت کا باعث ہوتا اس کا انتظام میں نے خود ہی کر لیا۔آئند ہ عورتوں کو کہیں اور مناسب جگہ پر بٹھانے کاانتظام ہونا چاہیے۔
ان واقعات سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ آنکھ کی بے حجابی سے ہمارے اسلاف کس قدر خائف تھے اور اس بارے میں وہ کتنے محتاط تھے۔اللھم اجعلنا منھم
بینائی چھیننے والابحال کرنے پر بھی قادر ہے
ان واقعات سے ظاہر بین نگاہیں تعجب کا اظہار کریں گی مگر وہ اس پر ایمان کیوں نہیں لاتے کہ جس قادر مطلق نے بینائی چھین لی،وہ اسے درست کرنے پر بھی قادر ہے کوئی چیز اس کی قدرت کا ملہ سے خار ج نہیں۔تاریخ کے اور اق میں ایسی اور بھی مثالیں موجود ہیں جن کا انکار مشکل ہی سے کیا جاسکتا ہے۔حضرت زنیرہ رضی اللہ عنہ سابقین اولین میں سے تھیں۔جنہیں اسلام لانے کی پاداش میں ابو جہل تختہ مشق بنا تا اور طرح طرح کے عذاب میں مبتلا کرتا،حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے دیکھا تو برداشت نہ کر سکے،انہوں نے خرید کر انہیں آزاد کر دیا،اسلام لانے کے بعد اتفاق سے ان کی بینائی جاتی رہی تو مشرکین مکہ کہنے لگے کہ لات وعزی کی مار اس پر پڑی ہے انہوں نے اس کی بینائی ضائع