کتاب: آفات نظر اور ان کا علاج - صفحہ 53
سے ڈرتے ہوئے ہمارے اسلاف کا ذکر یقینا فائد ے سے خالی نہ ہوگا۔ چنانچہ امام مالک رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں کہ :یونس بن یوسف اور ایک روایت میں یوسف بن یونس بن حماس کا شمار نہایت عابد وزاہد اور پسند یدہ حضرات میں ہوتا ہے۔ ایک دفعہ وہ مسجد سے واپس آرہے تھے کہ انہیں ایک عورت راستے میں نظر آئی اور اس کے بارے میں دل میں کھٹکا پیدا ہوا۔تو انہوں نے اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے دعا کی کہ اے اللہ! یہ آنکھ تو آپ نے مجھے ایک بڑی نعمت دی تھی مگر اب خوف آنے لگا ہے کہ یہ کہیں میرے لئے فتنہ وفساد کا موجب نہ بن جائے اس لئے عرض ہے کہ میری بینائی جاتی رہے[1]تا کہ میں کہیں کسی آزمائش میں مبتلا نہ ہو جاؤں۔چنا نچہ اس کی نظر جاتی رہی،مسجدمیں ایک ان کا عزیز بچہ لے جاتا تھا وہ مسجد میں عبادت کرنے لگتے اور بچہ کھیل کود میں مصروف ہو جاتا جب جانا ہو تا یا کوئی ضرورت درپیش ہوتی وہ بچے کو بلا لیتے۔اسی اثناء میں ایک روز وہ مسجد میں تھے کہ پیٹ میں گڑبڑ ہوئی انہوں نے بچے کو بلا یا تو وہ نہ آیا انہوں نے کہا آج کہیں اسی مسجد میں بول وبراز کی بنا پرشرمسار نہ ہونا پڑے۔انہوں نے اسی حالت میں اللہ تعالیٰ سے دعا کی،اے اللہ ! آپ نے آنکھوں کو نعمت بنایا،میں نے اس میں فتنہ وفساد کو پاکر آپ سے ان کے ختم ہونے کی دعا کر دی۔مگر آج یہاں مسجد میں خطرہ ہے کہیں رسوانہ ہو جاؤں آپ میری بینائی بحال کر دیں۔ چنانچہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ان کی نظر درست کر دی اور یوں وہ بآسانی اپنے گھر چلے گئے۔امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے انہیں نابینا اور بینا دونوں حالتوں میں دیکھا ہے۔ امام یحیی بن رحمہ اللہ ابی کثیر فرماتے ہیں کہ ایک عورت قندیل کے پاس کھڑی تھی کہ ایک آدمی نے اس کی طرف دیکھا،میں نے اسے سمجھایا،اور اس عورت نے اسے کہا تو اس چیز کی طرف دیکھتا ہے جوکسی اور کی ملک ہے اس نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے دعا کی کہ اس کی بینائی ضائع ہو جائے،چناچہ وہ نابینا ہو گیا۔بیس سال اسی طرح گزر گئے،جب وہ
[1] اس کا علاج غض بصر تھا۔آنکھ اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے اس کے ضائع کرنے کی دعا رہبانیت تو کا ہو سکتی ہے،اسلام کی یہ بہر حال تعلیم نہیں۔ہم نے یہ واقعات محض بطورعبرت نقل کئے ہیں۔