کتاب: آفات نظر اور ان کا علاج - صفحہ 50
منظور ہو جائے گی(تہذیب)انہی کے بارے میں ان کے شاگرد کا بیان ہے کہ انہوں نے ایک بار کہا:’’ما أحب أنّی بصیر أنّی أذکر أنّی نظر ت نظرۃ وأنا شاب‘‘
جوانی کے عالم میں مجھے اپنی ایک نگاہ یاد ہے اس لئے میرے دل میں کبھی یہ خواہش پید ا نہیں ہوئی کہ میری نظر ہوتی۔
حضرت حسان بن ابی سنان رحمہ اللہ کا شمار امام حسن بصری رحمہ اللہ کے تلامذہ میں ہوتا ہے۔راہ چلتے ہوئے نگاہ نیچی رکھنے میں ان کا حال یہ تھا کہ ایک مرتبہ جب وہ نماز عید پڑھ کرواپس لوٹے تو کسی نے کہا آج نماز عید میں بہت عورتیں شریک ہوئی تھیں۔انہوں نے فرمایا’’ماتلقتنی امرأۃ حتی رجعت‘‘ ’’واپسی تک مجھے تو کوئی عورت نہیں ملی ‘‘۔ عید ہی کے روز باتوں باتوں میں ان کی بیوی نے ان سے کہا آج تو آپ نے خوبصورت عورتوں کو دیکھا ہو گا فرمانے لگے گھر سے نکلنے سے واپسی تک اپنے انگوٹھوں کو دیکھتا رہا مجھے تو کوئی عورت نظر نہیں آئی۔
حافظ ابن جوزی رحمہ اللہ ہی نے ذکر کیا ہے کہ داؤد بن عبداللہ رحمہ اللہ بصرہ تشریف لے گئے ایک آدمی نے انہیں اپنا مہمان ٹھہرایا۔اتفاقا ً اسے گھر سے باہر جانے کی ضرورت ہوئی تو اس نے نیک سیرت بیوی ’’جس کا نام زرقاء تھا ‘‘سے کہامیرے مہمان کی خدمت میں کوئی کمی نہ آنے پائے۔صاحب خانہ واپس لوٹے تو اس نے داؤد بن عبد اللہ سے پوچھا ’’زرقاء ‘‘نے آپ کی خدمت مدارت میں کوئی کمی تو نہیں کی،اسے آپ نے کیسا پایا؟ فرمانے لگے :’’زرقاء‘‘کون ؟،اس نے کہا اس گھر کی ملکہ،میری بیوی کا نام ہے۔کہنے لگے میں نے کسی زرقاء یا کحلاء یعنی نیلی یا سیاہ آنکھوں والی کو نہیں دیکھا۔ خاوند حیران رہ گیا۔گھر جا کر بیوی کو سخت سست کہا کہ میں نے تمہیں اپنے مہمان کے بارے میں نصیحت کی تھی تو نے اس کی کوئی خدمت نہیں کی۔اس نے جواباً کہا’’أوصیتنی بر جل أعمی واللّٰہ ما رفع طرفہإلی‘‘آپ نے مجھے اندھے آدمی کی خدمت کے بارے میں کہا اللہ کی قسم اس نے میری طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا‘‘ (ذم الھوی)
شیخ عبد العزیز بن رواد رحمہ اللہ کا شمار محدثین میں ہوتا ہے۔نہایت عابد وزاہد