کتاب: آفات نظر اور ان کا علاج - صفحہ 36
مَالَنَا مِنْ مَجَالِسِنَا بُدٌّ نَتَحَدَّثُ فِیْھَا فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فَإِنْ أَبَیْتُمْ فَأَعْطُوْا الطَّرِیْقَ حَقَّہٗ قَالُوْا مَا حَقُّ الطَّرِیْقِ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ؟ قَالَ غَضُّ الْبَصَرِ وَکَفُّ الْأَذَی وَرَدُّ السَّلاَمِ وَ الْأَمْرُبِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّھْیُ عَنِ الْمُنْکَرِ ‘‘ (بخاری،مسلم) ’’کہ چوراہوں پر بیٹھنے سے اجتناب کرو،صحابہ کرام نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !بعض ہماری مجلسیں لا بدی ہوتی ہیں جس میں ہمیں باتیں کرنا ہوتی ہیں،تو آپ نے فرمایا اگر یہ مجلس نا گزیر ہو تو راستے میں بیٹھنے کا حق ادا کیا کرو،انہوں نے عرض کی راستے کا حق کیاہے ؟ آپ نے فرمایا نگاہ نیچی رکھو کسی کو تکلیف مت دو،کوئی سلام کہے تو اس کا جواب دو،نیکی کا حکم دو اور برائی سے منع کرو‘‘ اسی طرح حضرت زید بن سہل فرماتے ہیں کہ ہم گھر سے باہر بیٹھے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا تم یہاں راستے میں کیوں بیٹھے ہو؟ ہم نے عرض کی ہم کسی برے ارادے سے نہیں بیٹھے۔بس چند باتیں کرنے کے لئے ہم یہاں بیٹھ گئے تھے،آپ نے فرمایا: ’’أَمَّا لَا بُدَّ فَأَدُّوْا حَقَّھَا غَضُّ الْبَصَرِوَرَدُّ السَّلَامِ وَ حُسْنُ الْکَلَامِ‘‘ (مسلم) ’’اگر اس کے بغیر چارہ نہیں تو اس کا حق ادا کرو اور وہ یہ کہ نگاہ نیچی رکھو،سلام کا جواب دو اور اچھی بات کرو‘‘ یعنی سرِ راہ بیٹھنا ہے تو سلامتی کا پیغام بن کر بیٹھو۔سلام کا جواب دو،تمہارے سامنے بیہودگی کا ار تکاب ہو رہا ہو تو اس سے روکو۔اچھی باتوں کاحکم دو کسی کی ایذا رسانی کا باعث نہ بنو۔باتیں کرنا ہیں تو اچھی کرو۔بری باتوں سے اجتناب کرو۔ اور آنکھیں نیچی رکھو۔ گویا اسلام سرِراہ بیٹھ کر راہ چلنے والی عورتوں کو دیکھنے کی اجازت نہیں دیتا انہیں دیکھ کر آوازیں کسنے نقلیں اتارنے اور بد تہذیبی کا مظاہر ہ کرنا تو بڑی دور کی بات ہے،مگر وائے