کتاب: آفات نظر اور ان کا علاج - صفحہ 35
اگر تیری دا ہنی آنکھ تجھے ٹھو کر کھلائے تو اسے نکال کر اپنے پاس سے پھینک دے کیونکہ تیرے لئے یہی بہتر ہے کہ تیرے اعضا میں سے ایک جاتا رہے اور تیرا سارا بدن جہنم میں نہ ڈالا جائے ‘‘(متی :ب۵،آیت ۲۷۔۲۹)
قارئیں کرام! غور فرمائیں انجیل میں کیا کہا جارہا ہے ؟مگر صد افسوس کہ آ ج مستشر قین اور مغربی ملحدین اس بارے میں اسلام کی تعلیمات پر اعتراض کرتے ہیں آنکھوں کی حفاظت کرنا،غیر محرم سے پردہ کرنا۔جو زنا سے بچنے کا ذریعہ ہے۔انہیں ایک نظر نہیں بھاتا۔مگر نہیں دیکھتے کہ عیسائیت میں تو زنا سے بچنے کے لئے کہا گیا ہے کہ بری نگاہ سے عورت کو دیکھا تو آنکھ ہی نکال دینی چاہئے۔اور آ ئندہ ان شاء اللہ آپ اپنے مقام پر دیکھیں گے کہ عیسائی مذہب میں اس پر عمل بھی رہا ہے۔انجیل کا یہ حکم زاہدانہ و راہبانہ روش کے مطابق تو ہو سکتاہے مگر انسانی معاشرے میں یہ ناممکن العمل ہے اس لیے دائمی شریعت میں جو حکم دیاگیا ہے وہ عین انسانی فطرت کے مطابق اور قابل عمل ہے۔ کہ عورت اپنے چہرے کو بالغ مردوں سے چھپائے اور مردو عورت اپنی نگاہیں نیچی رکھیں تاکہ عورت جو فطرتاً پر کشش اور جاذب نظر ہے اسے دیکھنے سے برے خیالات پیدا نہ ہوں اور اس سے پیدا ہونے والے فتنہ وفساد کا سد باب ہوسکے۔
سر راہ بیٹھنا منع ہے
یہ دنیا دار العمل ہے۔یہا ں کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے جو بڑی سر عت سے ختم ہوتا چلا جا رہا ہے بچپن گزر گیا۔جوانی گئی تو بہار گئی بڑھاپا آیا پیام اجل آگیا۔اور جب یہ اجل مسمٰی آئے گی تو اس سے کسی کومفر نہیں ہو گا۔تب آنکھیں کھلیں گی مگر اب وقت گز ر چکا۔اسلام مسلمان کو زندگی کے انہی لمحات کو پہچاننے کی تلقین کرتا ہے۔بے مقصد عمل اور فضول گپ شپ کی مجلسوں کی اجازت نہیں دیتا۔اسی طرح سرِراہ اورچوراہوں پر بیٹھنے سے بھی منع کرتا ہے البتہ نا گزیر حالت میں چند شرائط کے ساتھ اس کی اجازت ہے چنانچہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’إِیَّاکُمْ وَالْجُلُوْسَ فِی الطُّرُقَاتِ قَالُوْا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم