کتاب: آفات نظر اور ان کا علاج - صفحہ 31
نے مومنہ عورتوں کو بھی دیا چنانچہ فرمایا: ﴿وَقُلْ لِّلْمُوْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصٰرِھِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوْجَھُنَّ(النور:۳۱) ’’ایماندار عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ‘‘ ’’غض بصر‘‘یعنی آنکھوں کو نیچا رکھنے کے یہ معنی قطعا نہیں کہ راہ چلتے انسان اپنی آنکھوں کو یوں نیچا رکھے کہ دائیں بائیں اور آگے پیچھے کے احوال سے بالکل لا تعلق ہو جائے یوں تو ایکسیڈنٹ اور باہم ٹکر اؤ کا با عث ہو سکتا ہے۔ بلکہ مقصد یہ ہے کہ جن کو دیکھنے کی اجازت نہیں ان کو مت دیکھے اور ان سے اپنی آنکھیں نیچی کر لے قرآن مجید میں ﴿مِنْ اَبْصارِھِمْ ﴾میں ’’من‘‘تبعیضیہ ہے یعنی ہر نظر مراد نہیں بلکہ بعض وہ نظریں ہیں جو حرام اور بے فائدہ ہیں۔ اور جن کی طرف دیکھنے سے منع کیا گیاہے،وہ ہے اجنبی اور غیر محرم کو دیکھنا جو کہ فساد کی اصل جڑ ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا یہ حکیمانہ انداز ہے کہ برائی کے خاتمہ کے لئے اس کے اسباب وعوامل کو بھی ختم کرنے کا حکم دیا جاتا ہے۔شراب سے منع فرمایا تواوائل میں ان برتنوں کے استعمال سے بھی روک دیا گیا جن میں یہ تیار کی جاتی تھی۔قتل نا حق ہی سے نہیں روکا بلکہ قتل پر اعانت،اشارہ قتل،سر عام ننگی تلواروں اور اسلحہ کی نمائش کی بھی سختی سے ممانعت فرمائی۔اختلاف وانتشار،لڑائی جھگڑا اور قطع تعلق ہی سے منع نہیں فرمایابلکہ گالی گلوچ دینے،طعن و ملامت کرنے،تنابز بالا لقاب،بغض وحسد وعناد اور غیظ وغضب سے بھی روک دیا جو عموما لڑائی جھگڑ ے اور اختلاف کا سبب بنتے ہیں۔اسی طرح زنا اور بدکاری سے ہی منع نہیں فرمایا بلکہ غیر محرم کو دیکھنے،تنہائی میں اس کے ساتھ بیٹھنے سفر کرنے،نرم لہجے میں بات چیت کرنے،بناؤسنگار اور زیب وزینت اختیار کر کے باہر نکلنے مٹک مٹک کر چلنے سے بھی منع فرمایا تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ اسی طرح بد کاری سے بچنے کا ایک طریقہ یہی آنکھوں کو نیچا رکھنے کا ہے جس کا