کتاب: آفات نظر اور ان کا علاج - صفحہ 29
نگاہ اشارہ سے تجاوز نہ کرتی۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن زبیررضی اللہ عنہما فر ماتے ہیں کہ
’’لَا یُجَاوِزُ بَصَرُہٗ إِشَاَرتَہٗ‘‘ (ابو داود،نسائی،احمد،بیہقی)
’’کہ آپ کی نگاہ اشارہ سے تجاوز نہیں کرتی تھی‘‘
البتہ تعلیم نماز کے لئے مقتدی کا امام کو دیکھنا جائز ہے کیونکہ یہ بجائے خود نماز سے متعلق ہے کہ امام کب اور کیسے رکوع وسجدہ کر رہا ہے۔
نماز اور معراج
سبھی جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے پانچ نمازوں کی فرضیت کا حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کے موقع پر دیا۔اسی دوران میں جب آپ کو اللہ ذوالجلال والا کرام کا قرب نصیب ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ادب واحترام کا یہ عالم تھا کہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰی﴾(النجم: ۱۷)’’کہ نہ آپ کی نگاہ چند ھیائی اور نہ حد سے متجاو ز ہوئی‘‘ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یکسوئی اور انہماک کا یہ عالم تھا کہ جس مقصد کے لئے بلا یا گیا اسی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذہن اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ مر کوز رہی اور وہاں جو حیرت انگیز تجلیات اور قدرت الہیٰ کے مناظر تھے ان کو دیکھنے کے لئے آپ نے ایک تماشائی کی طرح ہر طرف نگاہیں دو ڑانی شروع نہیں کر دیں۔ آداب شاہی سے نا آشنا تو دربار کی سج دھج کی طرف بار بار دیکھے گا اور اپنی تو جہ کا اسے مرکز بنائے گا۔مگر ایک فرض شناس اور آداب آشنا دربار کا تماشا دیکھنے میں مشغول نہیں ہو گا بلکہ اپنی ساری توجہ اسی مقصد پر مر تکزر کھے گا جس کے لئے وہ دربار میں بلا یا گیا ہے۔یہ تھی کیفیت معراج کے دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی۔نماز بھی مومن کے لئے معراج اور رب ذوالجلال کے قرب کا ذریعہ ہے اس لیئے اس ادب کو نماز میں بھی ملحوظ رکھا گیا ہے۔اوپر آسمان کی طرف یا دائیں بائیں دیکھنے بلکہ گوشہ ٔ چشم سے التفات کرنے سے بھی منع فرمایا تاکہ نمازی کی تمام تر توجہ نماز میں اللہ ذوالجلال والاکرام کی طرف رہے۔اور اللہ تعالیٰ سے مناجات کی لذت پا سکے اور’’أَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَأَنَّکَ تَرَاہُ‘‘ ’’کہ یوں اللہ کی عبادت کرو جیسے تم اسے دیکھ رہے ہو‘‘ (بخاری ومسلم)یہی وجہ ہے کہ ہر وہ چیز جو نماز سے توجہ زائل کر دینے کا سبب ہو سکتی ہے