کتاب: آفات نظر اور ان کا علاج - صفحہ 27
نَّفْعَلَ فِیْ اَمْوَالِنَا مَا نَشَآئُ ﴾(ھود ۸۷)
’’اے شعیب ! تیری نماز تمہیں یہ حکم دیتی ہے کہ ہم چھوڑ دیں جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے رہے یا چھوڑ دیں جو کچھ ہم اپنے مالوں میں کرتے ہیں ‘‘
نتیجہ یہاں بھی وہی ہے کہ نماز شرک کی اجازت نہیں دیتی۔ایک سچا اور صحیح نمازی شرک کی پگڈنڈیوں میں مارا مارا نہیں پھر تا اور نہ ہی اپنے معاملات میں آزاد اور خواہش پر ست ہوتا ہے کہ جو چاہے کرے۔ظاہر ہے کہ اس سے ہماری بے روح نماز مراد نہیں بلکہ وہ نماز ہے جو الفت ومحبت کے جذبہ سے ادا کی جائے اور اسکے تمام لوازمات و واجبات کو نماز ہی کی حدتک محدود نہ سمجھا جائے بلکہ دوسرے اوقات ولمحات میں بھی اس کا اہتمام کیا جائے تو بلا شبہ نماز سے بڑھ کر انسان کو برائیوں سے روکنے والا اورکوئی عمل نہیں۔پوری تفصیل سے قطع نظر یہی دیکھئے کہ
آنکھ اور نماز
نماز ی کو حکم ہے کہ نماز میں اپنی نگاہ نیچی رکھے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :
’’مَا بَالُ أَقْوَامٍ یَرْ فَعُوْنَ أَبْصَارَھُمْ إِلَی السَّمَآئِ فِی صَلَا تِھِمْ فَاشْتَدَّ قَوْلُہٗ فِی ذٰلِکَ حَتٰی قَالَ لَیَنْتَھِیَنَّ عَنْ ذٰلِکَ أَوْ لَتُخَطَّفَنَّ أَبْصَارُھُمْ‘‘ (بخاری ومسلم)
’’لوگو ں کا کیا حال ہے کہ وہ اپنی آنکھیں نماز میں آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں۔ آپ نے اس بارے میں بڑی سخت بات فرمائی یہاں تک فرمایا کہ وہ اس سے باز آجائیں ورنہ ان کی آنکھیں اندھی کر دی جائیں گی‘‘
خود آپ کا معمول یہ تھاکہ
’’کَانَ إِذَا صَلّٰی طَأْطَأَ رَأْسَہٗ وَرَمٰی بِبَصَرِہٖ نَحْوَ الْأَرْضِ‘‘