کتاب: آفات نظر اور ان کا علاج - صفحہ 26
کائنات کی فطر ت کا اظھار ہے یہ طالب کا پہلا سبق ہے توسالک کی آخری منز ل ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کو ’’نور ‘‘فرمایا،اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کے اطمینان وسکون کا ذریعہ قرار دیا۔ نمازہی تمام پریشانیوں سے نجات دینے والی اور تمام مشکلوں کو دور کرنے والی چیز ہے۔بعض نادان کہتے ہیں کہ نماز سے کیا حاصل ہوتا ہے ؟تو عرض ہے کہ یہ بتلائیے کہ اس سے کیا حاصل نہیں ہوتا۔ہماری نمازوں کا حال تو بقول شاعر مشرق یہ ہے کہ ؎ جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا تیرا دل تو ہے صنم آشنا،تجھے کیا ملے گا نماز میں پوری تفصیل کا یہ مقام نہیں۔یہی دیکھئے کہ نماز کے بارے میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا ہے : ﴿اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِ﴾(العنکبوت :۴۵) ’’کہ بے شک نماز برائیوں اور منکرات سے بچاتی ہے ‘‘ گویا نماز نفس امارہ کو شہوات وخواہشات کی چراگاہ سے بچانے کے لئے ایک لگام کی حیثیت رکھتی ہے۔جب یہ لگام ہی نہیں تو نفس کو روکنے والی کونسی چیز باقی رہ جاتی ہے؟ اللہ تعالیٰ نے سورہ مریم میں نماز کو تمام انبیاء کرام کا عمل ذکر کرنے کے بعد فرمایاہے : ﴿فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِ ھِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوْا الصَّلٰوۃَ وَاتَّبَعُوْا الشَّہَوَاتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیَّا ﴾(مریم ۵۹) ’’پھر ان کے بعد ایسے لوگ آئے جنہوں نے نماز یں تر ک کر دیں اور شہوتوں کے پیچھے لگ گئے۔پس عنقریب وہ جہنم کی وادی کو دیکھ لیں گے ‘‘ غور فرمائیے یہاں نمازیں ضائع کردینے کا لازمی نتیجہ شہوات کی پیروی قرار دیا ہے اسی طرح حضرت شعیب علیہ السلام کی دعوت کے جواب میں ان کی بد نصیب قوم نے کہاتھا: ﴿یٰشُعَیْبُ اَصَلٰوتُکَ تَاْمُرُکَ اَنْ نَّتْرُکَ مَا یَعْبُدُ آبَاؤُنَا اَوْاَنْ