کتاب: آفات نظر اور ان کا علاج - صفحہ 24
انسان کے قلبی تاثرات کو بھانپ سکتا ہے۔مگر کان کا اس اعتبار سے دل سے کوئی علاقہ نہیں۔وہ صرف دل تک بات پہنچانے کی ذمہ داری ہی ادا کرتے ہیں۔ آنکھ سے کسی چیز کا ادراک مکمل اور اکمل ہوتا ہے۔نیز اس کا مقام اور محل بھی کان کی نسبت زیادہ خوبصورت اور عجائبات کا حامل ہے۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ یہ ساری تفصیل بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس بارے میں تحقیق یہ ہے کہ دونوں کو ایک اعتبار سے ایک دوسرے پر فوقیت حاصل ہے کانوں کو عمومیت کے اعتبار سے مزیت حاصل ہے جبکہ آنکھ کو کامل اوراکمل ادراک ہونے کے ناطے سے افضلیت حاصل ہے۔ (بدائع الفوائد: ج ۳ ص۷۰،۷۱ ج۱ ص۱۶۴،۱۶۵)حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے تقریباً یہی کچھ( مفتاح دار ا لسعادہ: ج۱ص ۱۱۰۔ ۲ ۱ ۱ )میں فرمایا ہے۔البتہ وہاں کا ن کو افضل قرار دینے والوں میں امام ابو المعالی وغیرہ کا اور آنکھ افضل قرار دینے والوں میں امام ابن قتیبہ کا نام لیا ہے۔ واللّٰہ اعلم۔ بلاشبہ کان اور آنکھ کو بعض وجوہ کی بنا پر ایک دوسرے پر فوقیت حاصل ہے مگر بحیثیت مجموعی دیکھا جائے تو آنکھ افضل ہے اس کا دائرہ کا روسیع اور ادراک کامل ومکمل ہوتا ہے۔یہ حصول کا ذریعہ ہی نہیں حفاظت کا بھی ذریعہ ہے۔آنکھ کو عربی زبان میں ’’عین ‘ ‘ کہا گیا ہے علامہ راغب فرماتے ہیں کہ ’’عین ‘‘بمعنی سونا بھی آیا ہے کیونکہ یہ جواہرات میں افضل سمجھا جاتا ہے۔جیساکہ اعضا میں آنکھ سب سے افضل ہے اور اسی سے افاضل قوم کو’’اعیان‘‘کہا جاتا ہے۔اور ماں باپ دونوں کی طرف سے حقیقی بھائیوں کو’’اعیان الا خوۃ‘‘عینی بھائی کہا جاتا ہے (مفردات القرآن)ظاہر ہے کہ اولاد میں سب سے افضل عینی بھائی بہن ہی ہوتے ہیں۔آنکھوں کی ٹھنڈ ک ہی دل وجان کی راحت کا سبب بنتی ہے۔ اور جو چیزآنکھوں کی ٹھنڈ ک کا باعث بنے انسان اس کے حصول کی اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کا بھی یہی رجحان معلوم ہوتا ہے فرماتے ہیں کہ بنی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا ہے ’’ھذان السمع والبصر ‘‘کہ یہ دونوں کان اور آنکھ ہیں آپ کے اس فرمان میں چار