کتاب: آفات نظر اور ان کا علاج - صفحہ 23
کانوں کو افضل قرار دینے والے حضرات کا کہنا ہے کہ دنیاوآخرت کی سعادت ایمان واطاعت پر موقوف ہے اور یہ کانوں ہی کے ذریعہ سے حاصل ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام کانوں ہی سے سنا جا سکتا ہے۔اور کان سے جو علوم حاصل ہوتے ہیں ان کا دائرہ وسیع تر ہے آنکھ سے صرف موجودات کا علم ہوتا ہے جبکہ کان سے موجود ومعدوم،حاضر وغائب اور قریب وبعید کا ادراک ہوتاہے۔ قرآن مجید میں کفار کا قرآن نہ سننے کی مذمت زیادہ بیان ہوئی ہے جبکہ عدم بصرکی مذمت عقل وسمع کے بالتبع ہے۔سماعت نہ ہو تو انسان گو نگا ہوتا ہے مگر نابینا ہو تو بصیرت میں بسا اوقات اضافہ ہوجاتاہے اور نابینا حضرات علم وفضل میں بلند مرتبہ پر فائز ہوتے ہیں مگر عموما بہروں کو یہ مقام حاصل نہیں ہوتا نابینا علماء تو بکثر ت ہوئے ہیں [1]لیکن بہرے نہ ہونے کے برابر،بلکہ صحابہ میں سے تو کوئی بھی بہرا نہ تھا۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ کان افضل ہیں۔ اس کے برعکس آنکھ کو افضل قرار دینے والے حضرات فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے انعامات میں سے سب سے بڑی نعمت اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا دیدار ہے جو جنت میں اہل جنت کو حاصل ہو گااور ظاہر ہے کہ یہ شرف آنکھ کو ہی حاصل ہو سکتا ہے۔ضرب المثل ہے کہ ’’شنید ہ کے بودماند دیدہ ‘‘ کیونکہ سننے میں غلطی کا امکان زیادہ ہے جبکہ دیکھنے اور مشاہد ہ کرنے میں غلطی کا امکان انتہائی کم ہوتاہے۔بلکہ علم کے مراتب ثلاثہ :علم الیقین،عین الیقین اورحق الیقین میں پہلا درجہ کان سے متعلق ہے اوردوسرا آنکھ۔تبھی اسے عین الیقین کہتے ہیں۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مُردوں کو دوبارہ زندہ کرنے کے بارے میں ایمان ویقین تھا۔مگر اس کے باوجود اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ ﴿رَبِّ أرِنِیْ کَیْفَ تُحْی الْمَوْتٰی﴾کہ ’’اے میرے رب مجھے دکھا کہ آپ مُردوں کو کیونکر زندہ کریں گے؟‘‘علم کے اس اعلیٰ مرتبہ کا تعلق آنکھ سے ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ آنکھ افضل ہے آنکھ دل کا آئینہ ہے۔آنکھ سے دل کے تاثرات یعنی کسی سے محبت اور بغض،دوستی اور عداوت،خوشی اور غمی کے آثار نمودار ہوتے ہیں جس سے انسان دوسرے
[1] کتب تاریخ ورجال میں نابینا علماء کی ایک طویل فہرست ہے،مولانا حبیب الرحمن شروانی مرحوم کا اس سلسلے میں ایک مستقل رسالہ ’’علماء سلف اور نابینا علماء ‘‘قابل دیدہے۔