کتاب: آفات نظر اور ان کا علاج - صفحہ 22
’’یعنی ان میں سے بہت سے لوگ ایسے ہیں جو تیری باتیں سنتے ہیں مگر کیا تو بہروں کو سنائے گا خواہ وہ کچھ نہ سمجھتے ہوں ؟اور ان میں سے بہت سے لوگ وہ ہیں جو تجھے دیکھتے ہیں مگر کیا تو اندھوں کو راہ بتائے گا خواہ انہیں کچھ نہ سوجھتا ہو ‘‘
ان آیا ت میں قوت سماع کے ضائع ہونے سے عقل کے چلے جانے کا ذکر ہے مگر نظر کے جانے سے صرف بینائی کے جانے کا ذکر ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ کان افضل ہیں۔لیکن امام ابن الانباری فرماتے ہیں کہ یہ استدلال درست نہیں۔کان آنکھ سے افضل کیونکر ہو سکتے ہیں۔جبکہ آنکھ کی بدولت انسان بآسانی چلتا پھر تا ہے۔منزل کو بآسانی پالیتا ہے اور ہلاکت وبربادی کی جگہ سے بآسانی بچ نکلتا ہے۔چہرے کی خوبصورتی اور رونق اسی سے ہے۔اور حدیث میں آنکھ ہی کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ جس کی میں (اللہ عزو جل )دونوں آنکھوں کی بینائی ختم کر دوں وہ اس پر صبر کرے تو اس کی جزا جنت ہے۔یہ بشارت قوت سماعت چلے جانے پر قطعا نہیں جوا س کی دلیل ہے کہ آنکھ افضل ہے۔ نیز فرماتے ہیں کہ ابن قتیبہ نے جس آیت سے استدلال کیا ہے وہ استدلال بھی درست نہیں کیونکہ نظر کے جانے سے صرف بینائی کے چلے جانے کا ہی ذکر نہیں بلکہ ﴿ لَا یُبْصِرُوْنَ﴾سے مراد بصارت قلبی سے محرومی ہے۔جیسے سماعت کے فقد ا ن سے ﴿لَا یَعْقِلُوْنَ﴾بے وقوفی کا ذکر ہے۔(ویسے بھی سر کی آنکھیں کھلی ہونے سے چند ا ں فائدہ نہیں ہوتا جانور بھی تو آنکھ سے دیکھتا ہے اصل دل کی آنکھوں کا کھلا ہونا یعنی بصیرت مراد ہے اسی لئے نفی یَنْظُرُوْنَکی نہیں ﴿لاَ یُبْصِرُوْنَ﴾ کی ہے پھر اس آیت میں اگر کانوں کا ذکر پہلے ہے تو اس سے بھی ان کا افضل ہونا ثابت نہیں ہو تا کیونکہ ایک دوسرے مقام میں آنکھوں کا ذکر پہلے ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے :
﴿ مَثَلُ الْفَرِیْقَیْنِ کَالْاَعْمٰی وَاْلاَصَمِّ وَالْبَصِیْرِ وَالسَّمِیْعِ﴾ (ھود:۲۴)
’’ان دونوں فریقوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک آدمی اندھا بہر اہو اور دوسرا دیکھنے اور سننے والا ہو۔ کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں۔؟‘‘