کتاب: آفات نظر اور ان کا علاج - صفحہ 19
دوران آنکھوں کو آسمان کی طرف اٹھانے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے اور خبردار کیا ہے کہ اگر تم اس سے باز نہیں آؤگے تو خطرہ ہے کہ کہیں تمہاری بینائی ضائع نہ کر دی جائے (بخاری ومسلم )اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے اس سے ڈرتے رہنا چاہیے اور آنکھوں کو اسی جگہ استعمال کرنا چاہئے جہاں اس کی اجاز ت ہے۔
آنکھ کا شکر
آنکھ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی عظیم نعمت ہے۔امام بکر بن عبد اللہ مزنی فرمایا کرتے تھے کہ اے آدم کے بیٹے! اگر تو یہ معلوم کرنا چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو کتنی نعمتوں سے نوازا ہے تو تم اپنی آنکھیں بند کر لو خود بخود اللہ کے انعامات کا علم ہو جائے گا۔ہر نعمت پر شکر لا زم ہے اور یہ شکر صرف زبان ہی سے نہیں بلکہ ہر عضو اپنے دائرے میں شکر کا مقتضی ہے۔امام ابو حازم سلمہ بن دینار رحمہ اللہ فرماتے ہیں آنکھوں کا شکریہ ہے :
’’اِنْ رَاَیْتَ بِھِمَا خَیْراً اَعْلَنْتَہٗ وَاِنْ رَأَیْتَ بِھِمَا شَرّاً سَتَرْ تَہٗ‘‘
(تھذیب ابن عساکر ص۲۸۸ ج۶،کتاب الشکر لا بن ابی الدنیا ص۶۰)
اگرتو ان سے کوئی اچھی چیز دیکھے تواس کا اظہار کرے اور اگر بری چیز دیکھے تواس کی پردہ پوشی کرے۔
بصا رت چلے جانے کا بدلہ
بینائی جتنی عظیم نعمت ہے اس کے ختم ہونے پرا گر صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا جائے تو اس کا اجر بھی اتنا ہی بڑا ہے۔چنانچہ صحیح بخاری شریف میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ میں اپنے جس مومن بندے کو آنکھوں سے محروم کرکے اسے آزمائش میں مبتلا کر دوں اور وہ اس پر صبر کرے تو ان دونوں آنکھوں کے بدلے میں اسے جنت دوں گا۔اور ایک حدیث کے الفاظ میں ہے کہ ’’لَمْ یَکُنْ لَّہٗ جَزَآئٌ عِنْدِیْ إِلَّا الْجَنَّۃَ‘‘ کہ’’ میرے پاس اس کے لئے اس کی جزاء جنت کے علاوہ اور کوئی نہیں۔‘‘مسند امام احمد رحمہ اللہ میں حضرت عائشہ بنت قدامہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو یہ بات بڑی نا گوار گزرتی ہے کہ