کتاب: آفات نظر اور ان کا علاج - صفحہ 18
اللہ تعالیٰ چاہے تو بصارت چھین لے یہ آنکھیں اللہ تعالیٰ کا عظیم عطیہ ہیں۔اس کی کوئی قیمت انسان ادا نہیں کرتا اور نہ ہی اس کا کوئی مطالبہ ہے۔مطالبہ ہے تو بس اس بات کا کہ اس کو اللہ کی مرضی کیمطابق استعمال کیا جائے جہاں آنکھ کے تصرفات سے روکا ہے اس سے پرہیز کیا جائے ورنہ یہ نعمت چھینی جا سکتی ہے۔ ﴿وَلَوْ نَشَآئُ لَطَمَسْنَا عَلٰٓی اَعْیُنِھِمْ فَاسْتَبَقُوْ ا الصِّرَاطَ فَاَنّٰی یُبْصِرُوْنَ﴾ (یسٓ:۶۶) ’’اوراگرہم چاہتے تو ان کی آنکھوں کو ملیامیٹ کر دیتے پھر یہ راستے کی طرف دوڑتے پھر تے سو وہ ان کو کہاں نظر آتا ؟‘‘ ایک دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے ﴿قُلْ اَرَأَیْتُمْ اِنْ اَصْبَحَ مَآؤُکُمْ غَوْرًا فَمَنْ یَّأْتِیْکُمْ بِمَآئٍ مَّعِیْنٍ﴾ (الملک :۳۰) ’’آپ کہہ دیجئے کہ بھلا یہ بتلاؤاگر تمہار ا پانی غائب ہو جائے تو کون ہے جو تمہار ا (چشمے کا)[1] پانی لے آئے۔‘‘ حضرت شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ ایک نادان حکیم نے یہ آیت سنی تو کہنے لگا اگر ایسا اتفاق ہو جائے تو ہم پھاؤڑے اور کدال کی مدد سے پانی زمین سے نکال لیں گے۔ یہ بات کہنی تھی کہ سیاہ موتیہ اس کے آنکھ میں اتر آیا اور بینائی جاتی رہی اور پردہ غیب سے اس نے یہ آواز سنی کہ پہلے یہ سیاہ پانی اپنی آنکھ سے دور کر و اور بینائی کا سفید پانی اس کی جگہ لے آؤپھر زمین سے کنواں یا چشمہ کھود کر پانی نکالنا(عزیز ی )نماز کے
[1] شاعر نے اسی معنی میں کہا ہے ؎ لاکھ چاہا کہ کروں ضبط،نہ روؤں لیکن چشمہء چشم سے آہی گئے آنسو باہر