کتاب: آفات نظر اور ان کا علاج - صفحہ 15
آذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِھَا اُولٰٓئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ﴾
(الا عراف۱۷۹)
’’کہ ان کے دل ہیں مگر یہ ان سے سوچتے سمجھتے نہیں اوران کی آنکھیں ہیں مگر ان سے دیکھتے نہیں اوران کے کان ہیں مگر ان سے سنتے نہیں۔یہ لوگ چوپایوں کی مانند ہیں بلکہ یہ ان سے بھی بڑھ کر گمراہ ہیں ‘‘
یعنی ان سے وہی کام لیتے ہیں جس سے ان کی دنیوی خواہشات کی تکمیل ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ کسی چیز پر غور و فکر کرنے اس پر کان دھرنے اور بنظر عمیق اسے دیکھنے پر کھنے کا ان میں داعیہ ہی نہیں۔جس طرح چوپایوں کے تمام ادر اکات محض اپنے تن من کے لئے محدود ہیں اسی طرح ان کی ساری تگ ودو بھی اپنی ضروریات کیلئے ہے فطری صلاحیتیں ہوتے ہوئے بھی ان سے فائدہ نہیں اٹھاتے بلکہ بعض تو انتہائی بے عقلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مالک حقیقی کے مقابلے میں درختوں پتھروں جانوروں کی پرستش شروع کر دیتے ہیں۔ حیوانات ایسی حماقت کبھی نہیں کرتے۔جس کا کھاتے ہیں اسی کے در کا ہو رہتے ہیں مالک بلا تا ہے تو سر جھکا کر چلے آتے ہیں۔ اس لئے یہ حیوانات سے بھی بدتر ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے ہاں اس نعمت کا سوال ہوگا
انسان نے ایک نہ ایک دن اس دار العمل سے نکل کر دار الجزاء میں پہنچنا ہے جہاں اسے زندگی بھر کے نامہ اعمال کا حساب چکانا ہے۔اور اس دنیا میں جن ان گنت نعمتوں سے مستفید ہو رہا ہے ان کے بارے میں بھی سوال کا جواب دینا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :۔
﴿ثُمَّ لَتُسْئَلُنَّ یَوْ مَئِذٍ عَنِ النَّعِیْمِ﴾ (التکاثر :۸)
’’پھر تم سے اس دن نعمتوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا‘‘
حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے باہر تشریف لائے تو راستے میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اورحضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوگئی آپ نے فرمایا