کتاب: آفات نظر اور ان کا علاج - صفحہ 12
اور پینے کیلئے پانی کا چشمہ کس نے جاری کیا؟عرض کرے گا اے اللہ! آپ نے۔اللہ تعالیٰ فرمائیں گے یہ سب میری رحمت سے ہوا۔میری رحمت سے ہی تو جنت میں جائے گا۔ اور حکم فرمائے گا کہ میرے بندے کو میری رحمت سے جنت میں داخل کر دو۔ (المستدرک للحاکم،والتر غیب ص۳۹۹۔۴۰۱ج۴)اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ آنکھ اللہ تعالیٰ کی کتنی بڑی نعمت ہے۔ امام حاکم رحمہ اللہ نے اس حدیث کے بارے میں فرمایا ہے کہ اس کی سند صحیح ہے۔ علامہ منذری رحمہ اللہ نے الترغیب اور علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے شفاء العلیل (ص۱۱۴)میں ان کی موافقت کی ہے۔ لیکن یہ صحیح نہیں بلکہ ضعیف ہے۔جیسا کہ علامہ ذہبی نے تلخیص المستدرک اور میزان (ج۲ص۲۲۸)میں کہا ہے۔علامہ البانی نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے تفصیل کے لئے دیکھئے (الضعیفہ نمبر ۱۱۸۳)تاہم معنوی طورپر اس کی تائید حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ وغیرہ کی حدیث سے ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کوئی شخص اپنے اعمال کے بدلے میں جنت میں نہیں جا سکتا۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا جناب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی نہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں بھی نہیں الاّ یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنے فضل اوراپنی ر حمت میں ڈھانپ لے۔ (بخاری،مسلم وغیرہ،راجع الصحیحۃ نمبر ۲۶۰۲) زبان اور ہونٹ سے انسان اپنے مافی الضمیر کا اظہار کرتا ہے۔کھانے پینے میں بھی یہ دونوں ممدو معاون ثابت ہوتے ہیں۔جبکہ آنکھ سے انسان تمام خارجی محسوسات کا ادراک کرتاہے۔اور اللہ تعالیٰ کی صناعی اور کاریگری کا مشاہدہ کرتا ہے۔ آنکھوں کی اس اہمیت کی بنا پر کہا جاتا ہے’’آنکھ ہے تو جہان ہے،آنکھ نہیں تو جہان نہیں ‘ ‘ اور یہ بھی کہ’’آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل‘‘یا’’آنکھ اوٹ پہاڑ اوٹ ‘‘اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’آنکھ مندی اندھیرا پاک‘‘یعنی آنکھ بند ہونے کے بعد اند ھیرا ہی اندھیرا ہے۔ آنکھ کی حفاظت آنکھ کی اسی عظیم نعمت کا تقاضا ہے کہ اس کی حفاظت کی جائے اور اسے ضائع ہونے سے بچا یا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آنکھوں میں سرمہ لگانے کی تاکید فرمائی ہے