کتاب: آداب دعا - صفحہ 94
بارے میں کہ اُس پر اس نے کتنا عمل کیا ؟ اور اُس کے مال کے بارے میں کہ اُس نے وہ کہاں سے کمایا اور کہاں اُسے خرچ کیا ؟ اور اُس کے جسم کے بارے میں کہ اُس نے اُسے کہاں برباد کیا ؟ ۔‘‘ غرض مالی معاملات میں لا پرواہی کرنے والے کی دعاء بھی قبول نہیں ہوتی کیونکہ مستدرک حاکم ، معانی الأثار طحاوی ، حلیۃ الاولیاء ابو نعیم، الفردوس دیلمی اور تاریخِ دمشق ابن عساکر میں مروی ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے : ((ثَلاَثَۃٌ یَدْعُوْنَ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ فَلَا یُسْتَجَابُ لَہُمْ :)) ’’تین آدمی اللہ عزّ و جلّ سے دعائیں مانگتے ہیں لیکن انکی دعائیں قبول نہیں کی جاتیں۔‘‘ (اور اُن میں سے تیسرے شخص کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ): ((… وَ رَجُلٌ اَتـٰی سَفِیْہاً مَالَہٗ ، وَ قَالَ اللّٰہُ تَعَالیٰ :{وَ لَا تُؤْتُوْا السُّفَہَآئَ أَمْوَالَکُمْ }))۔[1] ’’ اور وہ شخص جس نے ناسمجھ و ناتجربہ کار لوگوں کو مال دیا ہو جبکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :اور اپنے اموال ناسمجھ و ناتجربہ کار لوگوں کو نہ دو ۔‘‘
[1] صحیح الجامع ۱؍۵۹۰ ، الصحیحہ ۳؍۴۲۰، النسآء : ۵ ۔