کتاب: آداب دعا - صفحہ 92
اور اس سے اگلی ہی آیت:۶ میں مال انکے حوالے کرنے کا طریقہ بتاتے ہوئے فرمایا : {وَ ابْتَلُوْا الْیَتٰمٰی حَتَّیٰ اِذَا بَلَغُوْا النِّکَاحَ فَاِنْ آنَسْتُمْ مِّنْہُمْ رُشْداً فَادْفَعُوْا اِلَیْہِمْ أَمْوَالَہُمْ } ۔ ’’اور یتیموں کو انکے بالغ ہو نے تک سدھارتے اور آزماتے رہو، پھر اگر ان میں تم ہوشیاری اور حسنِ تدبیر پاؤ تو انہیں انکے مال سونپ دو‘‘ ۔ مال و دولت نااہل لوگوں کے سپرد کرنے والے شخص سے مراد دوسرا وہ شخص بھی ہوسکتا ہے جو مالدار ہو اور کسی نا تجربہ کار شخص کو بغرضِ تجارت و کاروبار رقم دے دے تاکہ مضاربت کر سکیں کیونکہ ناتجربہ کار آدمی سے نقصان کے سوا کیا توقع رکھی جاسکتی ہے ؟ ایسے ہی ناسمجھ و فضول خرچ لوگوں کے ہاتھ میں اپنا مال دینا بھی ہے کیونکہ یہ بھی مالی معاملے میں سستی کا مظاہرہ ہے جس سے مال ضائع ہو جانے کا خطرہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے فضول خرچی کرنے اور مال کو بے جا لوٹانے والوں کو شیطان کے بھائی قرار دیا ہے جیسا کہ سورۃ بنی اسرائیل ، آیت : ۲۶ اور ۲۷ میں ارشادِ الٰہی ہے : {وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْراً۔ اِنَّ الْمُبْذِّرِیْنَ کَانُوْا اِخْوَانَ الشَّیَاطِیْنِ وَکَانَ الشَّیْطَانُ لِرَبِّہٖ کَفُوْراً ۔} ’’اور اسراف و فضول خرچی سے بچو، بے جا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے ۔‘‘ ان آیاتِ قرآنیہ کی طرح ہی احادیثِ نبویہ میں بھی مال کی صحیح طور پر دیکھ بھال کا حکم دیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ قیامت کے دن مالی معاملات کے بارے میں باز پُرس ہوگی جیسا کہ سنن ترمذی میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے