کتاب: آداب دعا - صفحہ 9
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم تقدیم اِنَّ الْحمْدَ للّٰہِ نَحْمَدُہٗ وَ نَسْتَعِینُہٗ وَ نَسْتَغْفِرُہٗ وَ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ منْ شُرُورِ اَنْفُسِنَا وَ سَیِّئاتِ اَعْمَالِنَا ، مَنْ یَّھْدِہٖ اللّٰہُ فَلا مُضِلَّ لَہٗ وَ مَنْ یُّضْلِلْ فَلَا ھَادِیَ لَہٗ وَأَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلـٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلہٗ ۔أَمَّا بَعْدُ : دوسروں سے کلّی طور پر بے نیاز اور مستغنی ذات تو صرف اللہ الصّمد ، الحیّ القیّوم کی ہی ہے،باقی سب خصوصاً بنی نوعِ انسان اپنی زندگی کے لمحہ لمحہ میں اور قدم قدم پر اللہ تعالیٰ کا محتاج و فقیر ہے ، غنی وبے پرواہ اللہ ہے اور محتاجی ہم انسانوں کی فطرت ہے ۔ جیسا کہ سورۂ فاطر، آیت :۱۵ میں ارشادِ ربّانی ہے : { یَـٓأَیُّھَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَآئُ اِلٰی اللّٰہِ وَاللّٰہُ ھُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ } ’’اے لوگو ! تم اللہ تعالیٰ کے محتاج ہو اور اللہ غنی اور حمد وثناء والا ہے ۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ جب کسی پر کوئی مشکل وقت آتاہے تو صحیح العقیدہ مسلمان بے اختیار ہاتھ اٹھاکر اللہ سے فریاد کرتا اور دعائیں مانگتا ہے ۔ آج امّتِ مسلمہ سخت زبوں حالی میں مبتلا ہے ،ہر طرف سے مشکلات میں گِھری ہوئی ہے ۔ اسے طرح طرح کے چیلنجوں کا سامنا ہے ۔ امّت کے افراد کی تعداد ڈیڑھ ارب کے قریب ہوچکی ہے ۔ بیشمار لوگ شب و روز امّت کے حالات بہتر ہونے ، مسلمانوں کے معزّز ہونے ، کفّار کے تسلّط و اقتدار کے خاتمے اور مسلمانوں کی