کتاب: آداب دعا - صفحہ 51
موصوف نے روکااور فرمایا : ’’دعاء میں ایسی قیدیں اور شرطیں لگانا حد سے تجاوز کرنا اور مبالغہ آمیزی کرنا ہے۔ جسے قرآن و سنّت میں ممنوع و ناجائز قرار دیا گیا ہے ۔‘‘[1] عام مسلمانوں کیلئے بد دعاء کی جائے۔ اللہ تعالیٰ سے ایسی چیزوں کا سوال کیا جائے جو عام لوگوں کیلئے مضّر ہوں۔ یسی چیزیں طلب کی جائیں جن کا وہ دعاء کرنے والا اہل ہی نہیں ہے۔ مثلاً انبیاء کرام کے درجات و مراتب مانگنا و غیرہ۔ حرام کاموں میں اللہ تعالیٰ سے نُصرت طلب کرنا۔ ا للہ سبحانہٗ و تعالیٰ سے ایسی دعاء و آرزو کرنا جو پوری نہیں ہوسکتی ۔ مثلاً قیامت تک کی زندگی ، یا بشری ضرورتوں سے بے نیازی کا سوال کرنا وغیرہ۔ چِلّا چِلّا کر دعاء مانگنا بھی حد سے تجاوز اور مبالغہ آمیزی میں شمار ہوتا ہے ۔ دعاء و عبادت میں غیرُ اللہ کو شریک کیا جائے ۔ دعاء میں مبالغہ یہ بھی ہے کہ زبانِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے نکلی ہوئی دعاؤں کو چھوڑ کر عام لوگوں کی وضع کردہ دعائیں جو تکلّفات اور تحسینِ عبارات سے بھری ہوئی ہوں وہ پڑھتے رہیں۔ دعاء میں تضرّع و عاجزی کی بجائے لاپرواہی و تغافل کا اظہار کیا جائے ۔[2] (۲۰) … صالح لوگوں سے دعاء کی درخواست کرنا : نیک و صالح لوگوں سے اُن کی زندگی میں دعاء کروانا صرف جائز ہی نہیں بلکہ ایک مستحسن فعل ہے کیونکہ اس طرح قبولیتِ دعاء کی زیادہ اُمید ہوتی ہے۔ اور
[1] بحوالہ معارف القرآن مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ ۳؍۵۷۹ ۔ [2] ماہنامہ’’ نقوش‘‘ جلد:۹، سیرت نمبر،ص:۵۱۰ ۔