کتاب: آداب دعا - صفحہ 46
[بھی] ممکن ہے کہ تم کسی امر کو بہتر سمجھو حالانکہ وہ تمہارے حق میں [باعثِ] خرابی ہو ۔ اور اللہ تعالیٰ [تمہارے نفع و نقصان کی چیزوں کو خوب] جانتا ہے اور تم [اس کو پوری طرح] نہیں جانتے ۔‘‘ بسا اوقات انسان دعاء کی عدمِ قبولیّت کی وجہ سے بے صبری کا مظاہرہ کرتا ہے اور دعاء کو ترک کر دیتا ہے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے جیسا کہ بخاری و مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ارشادِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ہے : ((یُسْتَجَابُ لِاَحَدِکُمْ مَالَمْ یُعَجِّلْ یَقُوْلُ : دَعَوْتُ فَلَمْ یَسْتَجِبْ لِیْ)) [1] ’’ آدمی کی دعاء اس وقت تک قبول ہوتی رہتی ہے جب تک کہ وہ بے صبری ظاہر نہ کرے [بے صبری یہ ہے کہ دعاء کا اثر ظاہر ہونے میں دیر لگے تو ]وہ کہنے لگتا ہے: میں نے دعاء کی تھی ،قبول نہیں ہوئی ‘‘ ۔ صحیح مسلم کی ایک روایت میں مزید تفصیل بھی ہے اور اسکے الفاظ یہ ہیں : ((یُسْتَجَابُ لِلْعَبْدِ مَا لَمْ یَدْعُ بِاِثمٍ أَوْ قَطِیْعَۃِ رَحِمٍ مَا لَمْ یَسْتَعْجِلْ))۔ ’’بندے کی دعاء قبول ہوتی رہتی ہے بشرطیکہ کسی گناہ یا کسی قطع تعلّقی کی دعاء نہ ہو، جب تک وہ جلد بازی و بے صبری نہ دکھانے لگے ۔‘‘ کسی نے پوچھا ! اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! استعجال [جلد بازی وبے صبری ] کا کیا مطلب ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((یَقُوْلُ قَدْ دَعَوْتُ وَ قَدْ دَعَوْتُ فَلَمْ اَرَ یُسْتَجَابُ لِیْ فَیَسْتَحْسِرُ عِنْدَ ذاَلِکَ وَ یَدَعُ الدُّعَائَ))۔ [2]
[1] جامع الاصول ۴؍۱۶۳ ۔ [2] جامع الاصول ۴؍۱۶۴، مشکوٰۃ ۲؍۶۹۲