کتاب: آداب دعا - صفحہ 20
پہنچاسکتی ہے ، اور اگر تم نے ایسا کیا تو تم ظالموں میں سے ہو جائوگے ۔‘‘ اِن تمام آیات سے معلوم ہوا کہ ہر حالت میں انسان کو اللہ تعالیٰ ہی سے دُعا والتجاء کرنی چاہیئے ، مصیبتوں اور پریشانیوں میں فقط اللہ تعالیٰ کو ہی پُکارنا چاہیٔے ۔ دُعا چونکہ عبادت ہے ، اور تمام عبادات فقط اللہ ہی کہ لیٔے روا ہیں ، لہٰذا اللہ کے سوا کسی اور سے بھی دُعاء مانگنا، اُن کو مدد کے لیٔے پُکارنا ، اُن کو حاجت روا سمجھنا ، صریح و واضح شرک ہے ،جسے اللہ کبھی بھی معاف نہیں کرے گا ۔ اس مفہوم ومعنیٰ کی قرآنِ کریم میں کئی آیات موجود ہیں ۔ رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی یہی تعلیم ہے کہ اپنی معمولی سے معمولی حاجت وضرورت بھی اللہ ہی کے سامنے پیش کرو ، چنانچہ ترمذی وابن حبان میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ارشادِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ہے : (( لِیَسْأَلْ أَحَدُکُمْ رَبَّہٗ حاَجَتَہٗ کُلَّہاَ حَتّٰی یَسْاَلَہٗ شِسْعَ نَعْلَیْہِ اِذَا انْقَطَعَ)) [1] ’’ تم میں سے ہر کسی کو چاہیٔے کہ وہ اپنی ہر ضرورت اللہ سے طلب کرے، یہاں تک کہ اگر کسی کے جوتے کا تسمہ بھی ٹوٹ جائے تو وہ بھی اُس [ اللہ ] سے ہی طلب کرے ۔‘‘
[1] جامع الترمذی مع تحفۃ الاحوذی ۱۰؍۵۳ ، مشکوٰۃ ۲؍۶۹۶ شیخ البانی نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے ۔