کتاب: 477 سوال و جواب برائے نکاح و طلاق - صفحہ 94
اور یہ وجہ بھی ہے کہ عورت کے ولی اور لڑکے کا شادی پر باہمی اتفاق دو عادل آدمیوں کی گواہی کے بغیر زنا کا ذریعہ ہے۔ (اللجنة الدائمة:5129) 85۔قریشی عورت سے شادی۔ صحیح بات یہ ہے کہ نکاح میں برابری دینی لحاظ سے ہے نہ کہ خاندانی اعتبار سے۔فرمان باری تعالیٰ عام ہے: ((إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ أَتْقَاكُمْ)) (الحجرات:33) ’’بے شک تم میں سب سے عزت والا اللہ کے نزدیک وہ ہے جوتم میں سب سے زیادہ تقویٰ والا ہے۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا (جو کہ قریش خاندان کی تھیں) کانکاح اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے کیا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام تھے،اسی طرح آپ کے آزاد کردہ غلام زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا اور وہ بنواسد سے تھیں۔اسی طرح بخاری، نسائی اور ابوداؤد میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ بن عتبہ بن ربیعہ بن عبد شمس قریشی(جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) کے ساتھ جنگ بدر میں حاضر ہوئے تھے) نے سالم رضی اللہ عنہ کو اپنا متبنیٰ بنایا اوراس کیاشادی اپنی بھتیجی ہند بنت ولید بن عتبہ بن ربیعہ سے کی،حالانکہ سالم ایک انصاری عورت کا آزاد کردہ غلام تھا۔ امام ترمذی نے ابوحاتم المزانی سے بیان کیاہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إذا أتاكم مَن تَرْضون دينَه وخلقَه فأَنْكِحوه ، إلا تفعلوه تَكُنْ فتنةٌ في الأرضِ ، وفسادٌ كبيرٌ ، قالوا :يا رسولَ اللّٰهِ ، وإن