کتاب: 477 سوال و جواب برائے نکاح و طلاق - صفحہ 86
’’جب تمھارے پاس ایسا شخص آئے جس کے دین اور اخلاق کو تم پسند کرتے ہو تو اس سے نکاح کردو،اگر ایسا نہیں کرو گےتو زمین پرفتنہ اور لمبا چوڑافساد ہو گا۔‘‘ 2۔دوسرا ممنوع کام:شادی سے روک کر عورت پر ظلم کرنا یا ایسے شخص سے شادی نہ کرنے دیناجو اس سے شادی کرنے کا اہل ہے، یقیناً عورت کے بھی جذبات اور نکاح کی خواہش مرد کی طرح ہی ہے، میں اس سرپرست کے متعلق نہیں جانتا کہ اگر کوئی اس کی شدت خواہش کے باوجود اس کی شادی نہ ہونے دے تو کیا یہ ظالم کہے گایا کہ اسے حق پر تسلیم کرےگا؟جواب ظاہر ہے کہ یہ اسے ظالم اور ناحق والا کہے گا۔ بلکہ یہ جائز بھی نہیں کہ کوئی اسے شدید تمنا کے ہوتے ہوئے پسند کی شادی سے روکے،اس میں صرف اس کی شخصی خواہش کا احترام ہے، اگر یہ اپنے لیے ایسا پسند نہیں کرتا تو ان عورتوں کے حق میں ایسا کیوں چاہتا ہے کہ جو اس کی زیر ِسرپرستی ہیں؟ ایسے سر پرستوں کو بہت بڑے ممنوع کام سے ڈر جاناچاہیے، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی سے اور ان بیچاری عورتوں پر ظلم وستم سے،ہاں عورت اگر ایسے آدمی کو پسند کر لیتی ہے جو دینی اعتبار سے نامناسب ہے تو اس حالت میں ولی کو حق حاصل ہے کہ اسے شادی سے روکے اور لڑکے کو جواب دیدے ،کیونکہ عورت کوتاہ بین ہے، وہ ایسے آدمی کو پسند کر سکتی ہےجو دینی اعتبار سے ناپسندیدہ ہے، پھر اس کی خرابیاں واضح ہیں، اس وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو خود نکاح کی اجازت نہیں دی بلکہ یہ سرپرست کے ذمہ لگادیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ میں ان سرپرستوں کو ڈراتا ہوں جو اپنی بچیوں کی شادی ایسے لوگوں سے نہیں کرتے جو دینی اور اخلاقی اعتبار سے مناسب ہیں،