کتاب: 477 سوال و جواب برائے نکاح و طلاق - صفحہ 84
اطلاع دی جائے کہ اسے اچھی طرح معرفت اور پہچان حاصل ہو جائے، یہ لازم ہے، محض یہ نہ کہا جائےکہ ایک آدمی تجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے تو کیا ہم اس کے ساتھ تیری شادی کردیں؟ بلکہ معاملہ پوری طرح واضح کیا جائے اور کہا جائے فلاں بن فلاں تجھ سے نکاح کا خواہشمند ہے،اس کاکام کاج یہ ہے،اس کے دین واخلاق کے متعلق اس طرح وضاحت کی جائے کہ اسے صحیح پہچان ہو جائے، ہاں اگر لڑکی کے باپ کو معلوم ہو کہ وہ معاملہ اس کے سپرد کردے گی تو تب وہ کہہ سکتا ہے کہ تیری منگنی ہوگئی ہے اور ہم تیری شادی کرنا چاہتے ہیں۔ سواہم بات یہی ہے کہ عورت کی شادی اس کی اجازت اور علم کے بغیرجائز نہیں ہے،چاہے وہ کنواری ہویا بیوہ ،اس کا سرپرست باپ ہو یا کوئی اور،سنت کی دلالت اس کی متقاضی ہے،عقل اور قیاس کا بھی یہی تقاضا ہے،کیونکہ عورت نے، اگر جدائی واقع نہ ہو،تو ایک لمبی زندگی خاوند کے ساتھ رہنا ہے،خاوند اس کا شریک زندگی ہے تو بغیر علم واجازت اور اس پر جبر کرتے ہوئے اس کی شادی کیسے کی جا سکتی ہے؟باپ ہو یا کوئی دوسرا سرپرست عورت کے مال میں سے ایک روپیہ بھی اس کی اجازت کے بغیر خرچ نہیں کر سکتے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اس کو ایسے شخص کے ساتھ بیاہ دیں جسے وہ ناپسند کرتی ہے؟ لڑکی کا باپ ہو یا کوئی اور سرپرست اس کی جائیداد میں سے کسی چیز کےمالک نہیں ہیں،ماسوائے اس کی اجازت کے،تو پھر وہ اس کی شادی کیسے کر سکتے ہیں اور خاوند اس کے ان منافع جات کے استعمال کا مجاز کیسے بن سکتا ہے، جنھیں اللہ تعالیٰ نے عورت کے لیے حلال کیا ہے؟ جبکہ عورت کو علم ہی نہیں یا علم تو ہے لیکن شادی پر مجبور کیا گیا ہے۔ جو آدمی بھی شرعی مصادر پر غورو خوض کرتا ہے جان لیتا ہے کہ دین میں