کتاب: 477 سوال و جواب برائے نکاح و طلاق - صفحہ 62
ادائیگی کا پابندکرے تو یقیناً یہ حرام ہے،حلال نہیں ہے،کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بیٹیاں باپوں کے ہاں فروخت کردہ سامان کی مانند ہیں کہ جن کی قیمت میں اتار چڑھاؤ آتارہتا ہے،یہ امانت میں خیانت کے مترادف ہے،جس طرح کہ کئی لوگ اس کے مرتکب ہوتے ہیں،باپ یہ نہیں دیکھتا کہ لڑکا دین اور اخلاق کے اعتبار سے کیسا ہے؟بلکہ یہ نظریہ رکھتا ہے کہ حق مہر میں سے اسے دوسروں کی نسبت زیادہ کون دیتا ہے؟سرپرستوں کو متنبہ ہوجانا چاہیے کہ حق مہر میں سے ذاتی نوعیت کی کسی چیز کی بھی شرط لگانا اُن کے لیے حلال نہیں ہے،خواہ باپ ہو،بھائی ہو،چچا ہو یاکوئی اور،یہ شادی شدہ عورت کا حق ہے جو اس کی شرمگاہ اور اس سے استفادہ کا عوض ہے،کسی کا بھی اس پر قبضہ واختیار نہیں ہوسکتا۔ (ابن عثيمين :نور علي الدرب،ص:14) 29۔باپ کی بیوی کا اپنے شوہر کی بیٹیوں کے حق مہر سے حصہ لینا، اس تگ ودوکے عوض جو وہ ان کی تربیت کے حوالے سے کرتی ہے۔ حق مہر کہ وہ لڑکیاں مالک ہیں ،اگر وہ اپنے باپ کی بیوی یا کسی کو بھی اپنی اجازت سے کچھ دیتی ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔فرمان باری تعالیٰ ہے: ((فَإِن طِبْنَ لَكُمْ عَن شَيْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيئًا مَّرِيئًا)) (لنساء:4) ’’پھر اگر وہ اس میں سے کوئی چیز تمھارے لیے چھوڑنے پر دل سے خوش ہو جائیں تو اسے کھالو، اس حال میں کہ مزے دار،خوشگوارہے۔‘‘ (الفوزان:المنتقيٰ:182)