کتاب: 477 سوال و جواب برائے نکاح و طلاق - صفحہ 61
مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيئًا مَّرِيئًا)) (لنساء:4) ’’اور عورتوں کو ان کے مہر خوش دلی سے دو،پھر اگر وہ اس میں سے کوئی چیز تمھارے لیے چھوڑنے پر دل سے خوش ہو جائیں تو اسے کھالو، اس حال میں کہ مزے دار،خوشگوارہے۔‘‘ (اللجنة الدائمة:20879) 27۔خاوند کی اجازت کے بغیر عورت کا اپنے حق مہر میں تصرف کرنا۔ عورت حق مہر کی پوری طرح مالک ہے سوائے اس صورت کے کہ خاوند بغیر مباشرت اور خلوت کے اسے طلاق دیدے ،اس طرح خاوند کو نصف واپس مل جائے گا،جبکہ وہ حق مہر پر مکمل استحقاق رکھتی ہے،چاہے تو اسے بیچ ڈالے یا اس سے کوئی چیز خرید لے،خاوند کو اعتراض کا کوئی حق نہیں،ہاں!اگروہ سونا خریدے تاکہ خاوند کے لیے آراستہ ہو،اور پھر اس سے مطالبہ شروع کردے کہ اس کے بدلے وہ کچھ اور خرید کردے تو یہ جائز نہیں،کیونکہ یہ خاوند کو تکلیف دینے کا باعث ہے،بسا اوقات خاوند کی مالی حالت ناگفتہ بہ ہوتی ہے اور بیوی کی خوشنودی کے لیے وہ قرض اٹھاتا ہے۔ (ابن عثيمين :نور علي الدرب،ص:22) 28۔باپ کابیٹی کی رضا مندی کے بغیر اس کا حق مہر لے لینا۔ بیٹی جب حق مہر کی مالک بن چکی ہوتو باپ اس کی رضا مندی کے بغیر بھی اس کا حق مہر لے سکتا ہے، الا یہ کہ وہ اس کی ضرورت مند ہو اور اس کی ضروریات اس حق مہر کے بغیر پوری نہ ہوسکتی ہوں،اس صورت میں باپ نہیں لے سکتا،کیونکہ ذاتی ضرورت غیر کی ضرورت پر مقدم ہے،اگر باپ نکاح یا منگنی کے وقت یہ شرط لگائے کہ حق مہر میں اتنا اتنا میرے لیے ہوگا اور لڑکے کو اس کی