کتاب: 477 سوال و جواب برائے نکاح و طلاق - صفحہ 58
((يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ ۚ أُحِلَّتْ لَكُم بَهِيمَةُ الْأَنْعَامِ إِلَّا مَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ غَيْرَ مُحِلِّي الصَّيْدِ وَأَنتُمْ حُرُمٌ ۗ إِنَّ اللّٰهَ يَحْكُمُ مَا يُرِيدُ)) (المائدة:1) ’’اے لوگو!جو ایمان لائے ہو عہد پورے کرو۔تمہارے لیے چرنے والے چوپائے حلال کیے گئے ہیں،سوائے ان کے جوتم پر پڑھے جائیں گے،اس حال میں کہ شکارا کو حلال جاننے والے نہ ہو،جبکہ تم احرام والے ہو،بے شک اللہ فیصلہ کرتا ہے جو چاہتا ہے۔‘‘ حکم ایفاء،ایفاء عہد اور ایفاءِ شرط دونوں کو شامل ہے۔ جب آدمی پورے یا کچھ حق مہر کی تاخیر سے ادائیگی کی شرط لگائے تو کوئی حرج نہیں،لیکن اگر اس نے مقررہ وقت کی تعین کردی تو اس وقت کے آنے پر وہ ثابت ہوجائے گا،اور اگر اس نے تعین نہیں کی تو میاں بیوی کی جدائی پر وہ ثابت ہوجائے گا،جو کہ طلاق ،فسخ اور موت کی وجہ سے ہوسکتی ہے،یہ خاوند کے ذمہ قرض ہوگا۔اگر زندہ ہے تو وہ وقت مقرر گزرنے کے بعد وگرنہ موت کے بعد اس کا مطالبہ کیا جائے گا۔باقی قرضوں کی طرح اسے ورثاء ادا کریں گے۔ اگر خاوند مالدا رہے تو عورت پر اس حق مہر مؤجل میں زکوۃ واجب ہوگی،اور اگر وہ محتاج ہے تو عورت پرزکوۃ واجب نہیں ہوگی،اگر لوگ اس مسئلہ(حق مہر کی بالتاخیر ادائیگی) کو اپنا لیں تو بہت زیادہ لوگوں کے لیے شادی کرنا آسان ہوجائے۔ عورت اگر عقلمندی کا مظاہرہ کرے تو حق مہر مؤخر سے سبکدوش ہوجائے اور اگر خاوند معاف کروانے کے لیے اسے مجبور کرے یا طلاق کی دھمکی دے تو حق مہر ساقط نہیں ہوگا،کیونکہ میاں اپنی بیوی کو حق مہر کی معافی کے لیے مجبور نہیں کرسکتا۔ (ابن عثيمين :مجموع الفتاويٰ والرسائل:91)