کتاب: 477 سوال و جواب برائے نکاح و طلاق - صفحہ 53
اس میں کمی کرے اور نہ ہی اس کے مطالبے پر ٹال مٹول کرے،اور اگر عورت خود اسے دیدے یا معاف کردے یا کچھ حصہ معاف کردے تو کوئی حرج نہیں، یہ اس کا اپنا حق ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
((فَإِن طِبْنَ لَكُمْ عَن شَيْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيئًا مَّرِيئًا)) (لنساء:4)
’’پھر اگر وہ اس میں سے کوئی چیز تمھارے لیے چھوڑنے پر دل سے خوش ہو جائیں تو اسے کھالو، اس حال میں کہ مزے دار،خوشگوارہے۔‘‘
مسئلہ طرفین کے اتفاق کا ہے،وہ حق مہر کی ادائیگی کے حوالے سے فوراً ہوجائے یا بعد ازاں۔
(الفوزان:المنتقيٰ:181)
19۔حق مہر کی مقدار کا تعین۔
ہمارے علم میں کتاب وسنت میں ایسی کوئی دلیل نہیں جس میں حق مہر مقدار کا تعین کردیا گیا ہو، قرآن مجید میں کچھ دلائل ایسے موجود ہیں جن میں زیادہ حق مہرکی ادائیگی پر خبردار کیا گیا ہے،اور کچھ ایسے ہیں جو زیادہ اور تھوڑے حق مہر دونوں کو شامل ہیں۔پہلی بات کی دلیل یہ ہے:
((وَإِنْ أَرَدتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنطَارًا فَلَا تَأْخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا)) (لنساء:20)
’’اور اگر تم کسی بیوی کی جگہ اور بیوی بدل کر لانے کا ارادہ کرو اور تم ان میں سے کسی کو ایک خزانہ دے چکے ہو تو اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لو۔‘‘