کتاب: 477 سوال و جواب برائے نکاح و طلاق - صفحہ 52
17۔عورت حق مہر کا استحقاقِ کامل رکھتی ہے۔
بوقت عقد جب حق مہر مقرر کردیا جائے یا خاوند اور عورت کے سر پرست کے مابین بالاتفاق طے پاجائے،پھر شادی ہو جائے تو محض عقد سے ہی وہ حق مہر کی مالک بن جائے گی، اگر خاوند ہم بستری سے پہلے طلاق دیدے تواسے نصف واپس مل جائے گا،اگر مباشرت ہوگئی تو وہ مکمل حق مہر کی مالک بن جائےگی،جب نکاح ہو جائے اور حق مہر مقرر نہ کیا جائے تو مرد جب بھی وظیفہ زوجیت ادا کرے گا عورت کو حق مہر مثلی ملے گا۔ (ابن جبرین:الفتاویٰ:23/11)
18۔عقد نکاح کے وقت طرفین کا بالاتفاق حق مہر مقررکرنا
چاہے دولہا کچھ بھی ادائیگی نہ کرے:
نکاح میں حق مہر واجب ہے اور وہ عورت کا حق ہے،جس طرح کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
((وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً)) (لنساء:4)
’’اور عورتوں کو ان کے مہر خوش دلی سے دو۔‘‘
چنانچہ حق مہر واجب ہے اور بوقت نکاح مقرر کرنا سنت ہے،اگر اس وقت مقرر نہ بھی کیا جائے تو نکاح صحیح ہوگا اور وہ عورت کا حق ہے اور حکم الٰہی اس بارے میں معلوم ہی ہے،لوگ نکاح کے وقت اسے ذکرکریں،اگرچہ ادائیگی بعد میں ہی کریں تو اس میں کوئی حرج نہیں،اس لیے حق مہر اسی وقت ادا کردیا جائے تو بھی درست ہے،بعد میں ہو جائے پھر بھی صحیح ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ حق مہر ہونا چاہیے،جو خاوند بیوی کے حوالے کرے،