کتاب: 477 سوال و جواب برائے نکاح و طلاق - صفحہ 42
((إِذَا أَتَاكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ خُلُقَهُ وَدِينَهُ فَزَوِّجُوهُ إِلاَّ تَفْعَلُوا تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الأَرْضِ وَفَسَادٌ عَرِيضٌ))[1]
’’جب تمہارے پاس وہ شخص آئے کہ جس کے اخلاق اور دین کو تم پسند کرتے ہو تو اس سے نکاح کردو،وگرنہ زمین پر فتنہ اور لمبا چوڑا فساد پھیل جائے گا۔‘‘
چنانچہ سرپرست پر واجب ہے کہ وہ اس بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرے،وہ اپنی بیٹی کی مصلحت کا لحاظ رکھے نہ کہ اپنی غرض کو سامنے رکھے،یقیناً جو امانت اسے اللہ کی طرف سے سونپی گئی ہے اس کے متعلق اس سے بازپرس کی جائے گی۔یہ بھی اس کے شایان شان نہیں کہ وہ منگنی کرنے والے پر ایسا بوجھ ڈال دے جس کا وہ متحمل ہی نہیں،اور اس سے معروف ومروج حق مہر سے زیادہ مہر کا مطالبہ کرے۔(اللجنة الدائمة:20062)
3۔وہ امور جن کی بنیاد پر لڑکی خاوند کا انتخاب کرے۔
وہ اوصاف کہ جن کی بنیاد پر عورت کے لیے خاوند کا انتخاب کرنا مناسب ہے ان میں سب سے اہم اخلاق اور دین ہیں،رہا مال اور خاندان تو یہ ثانوی حیثیت رکھتے ہیں،لیکن سب سے اہم چیز یہ ہے کہ منگیتر دین اور اخلاق والا ہو،اس لیے کہ دین اور اخلاق والے کے پاس عورت کسی چیز کا فقدان نہیں پائے گی،اگر وہ سے رکھے گا تو اچھے طریقے سے رکھے گا اور اگر چھوڑ دے گا تو احسان کے ساتھ چھوڑدے گا،اورپھر دین واخلاق والا اس کے اور اس کی اولاد کے حق میں یقیناً بابرکت ثابت ہوگا کہ وہ اس سے دین واخلاق سیکھے گی،لیکن اگر وہ ایسا نہ ہوتو عورت پر لازم ہے کہ اس سے دور رہے،بالخصوص بعض ایسے لوگوں سے جو
[1] ۔صحيح۔سنن الترمذي ،رقم الحديث (1085)