کتاب: 477 سوال و جواب برائے نکاح و طلاق - صفحہ 372
”پھر یقیناً تم قریب ہو اگر تم حاکم بن جاؤ کہ زمین میں فساد کرو اور اپنے رشتوں کو بالکل ہی قطع کردو۔یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی۔ پس انھیں بہرا کردیا اور ان کی آنکھیں اندھی کردیں۔“ قطع رحمی کا حکم دینے والا اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مخالف ہے، اسے توبہ کرنی چاہیے اور رجوع الی اللہ کرنا چاہیے اور اس چیز کو ملائے جس کے ملانے کا اللہ تعالیٰ نے فرمان جاری کیا ہے، اور وہ شخص کہ جسے قطع تعلقی کا حکم دیا جا رہا ہے تو اس کے لیے جائز نہیں کہ اس آدمی کا حکم مانے ، اس لیے کہ خالق کی نا فرمانی میں مخلوق کی اطاعت نہیں ہے،اگر آدمی اپنی بیوی کو قطع تعلقی کا حکم دے تو اس پر موافقت لازم نہیں ہے، سوائے اس کے کہ یہ چیز اس کی زندگی میں ضرررساں ہوں، مثلاً کہ عورت کا اپنے رشتہ داروں سے ملنا عورت اور اس کے خاوند کے درمیان دشمنی اور عداوت کا سبب بنے، ان کے مابین دوری کا موجب ہو یا بیوی کے وہاں جانے سے کسی حرام کا م کے ارتکاب کا اندیشہ ، جیسا کہ بعض گھر والوں میں ہوتا ہے، اس صورت حال میں مرد بیوی کو منع کر سکتا ہے، لیکن ارادہ قطع رحمی کا نہ ہو بلکہ مقصد اس مفسدت اور خرابی سے بچنا ہو، جو وہاں جانے سے پیدا ہوتی ہے۔ اس نیت سے وہ قطع تعلقی کرنے والانہیں سمجھا جائے گا، اسی طرح ہم ان بچوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ جنھیں ان کے باپ قریبی رشتہ داروں سے ملنے سے روکتے ہیں،چچاؤں اور ماموؤں وغیرہ سے، اگر مقصد قطع تعلقی ہے تو یہ حرام اور اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت ہے اور اگر ان مفاسد اور خرابیوں سےگریزاں ہونا مقصود ہے جو وہاں جانے سے واقع ہو سکتی ہیں تو پھر جائز ہے،کیونکہ مقصد اصلاح ہے۔ (ابن عثيمين :نور علي الدرب،: 14)