کتاب: 477 سوال و جواب برائے نکاح و طلاق - صفحہ 370
462۔رشتہ داروں سے ان کی نماز چھوڑنے کی وجہ سے بائیکاٹ کرنا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گھر والے ہوں یا دیگر اقرباء ان کا انسان پر حق ہے، چاہے وہ کافر ہی ہوں، فرمان باری تعالیٰ ہے: ((وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَىٰ وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ وَإِن جَاهَدَاكَ عَلَىٰ أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۖ وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا ۖ ))(لقمان:13۔14) ”اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے بارے میں تاکیدکی ہے، اس کی ماں نے کمزوری پر کمزوری کی حالت میں اسے اٹھائے رکھا اور اس کا دودھ چھڑانا دو سال میں ہے کہ میرا شکر کر اور اپنے ماں باپ کا۔میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔ اور اگر وہ دونوں تجھ پر زور دیں کہ تو میرے ساتھ اس چیز کو شریک کرے جس کا تجھے کوئی علم نہیں تو ان کا کہنا مت مان اور دنیا میں اچھے طریقے سے ان کے ساتھ رہ۔“ لیکن یہ گھر والے جو نماز نہیں پڑھتے اسلام سے مرتد سمجھے جائیں گے، کیونکہ جو نماز نہیں پڑھتا وہ کافر ہے، جیسا کہ کتاب اللہ، سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اقوال صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین اس پر دلالت کرتے ہیں، بلکہ بعض علماء نے اس پر اجماع بھی نقل کیا ہے، جب وہ نماز کے تارک ہیں تو دین اسلام سے مرتد ہیں، انسان کے لیے ان سےملنا جائز نہیں، سوائے نصیحت اور خیر خواہی کے کہ وہ ان کی طرف جائے، انھیں نصیحت کرے اور ان کے لیے واضح کرے کہ اس ارتداد میں کتنی رسوائی اور دنیا و آخرت کی عار ہے، شاید کہ وہ لوٹ آئیں، اگر وہ مصر رہیں تو