کتاب: 477 سوال و جواب برائے نکاح و طلاق - صفحہ 349
نفاذ کیا جائے گا، پھر باقی ماندہ وراثت کو چوبیس حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، بیوی کو آٹھواں حصہ ملے گا،کیونکہ فرع وارث موجود ہے اور یہ چوبیس میں سے تین حصے بنتے ہیں، باپ کو چھٹا حصہ ملے گا اور چوبیس میں سے یہ چار حصے ہوں گے،ماں کو بھی چھٹا حصہ ملے گا جو چوبیس کا چوتھا بنے گا، باقی چوبیس میں سے تیسرا حصہ بچے گا جو اولاد میں مذکر کےلیے دو مؤنثوں کے برابر کے حساب سے تقسیم کردیا جائے گا، اس میں بیوی یا ماں، باپ اور اولاد میں سے کسی پر بھی ظلم وزیادتی نہیں ہے، بلکہ حکمت و انصاف کا یہی تقاضا ہے، نص اور اجماع امت اسی پر دلالت کرتے ہیں۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ((يُوصِيكُمُ اللّٰهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ)) (النساء:11) ”اللہ تمھیں تمھاری اولاد کے بارے میں تاکیدی حکم دیتا ہے، مرد کے لیےدوعورتوں کے حصے کے برابر حصہ ہے۔“ نیزفرمایا: ((وَمَن يَعْصِ اللّٰهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُّهِينٌ)) (النساء:14) ”اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نا فرمانی کرے اور اس کی حدوں سے تجاوز کرے وہ اسے آگ میں داخل کرے گا، ہمیشہ اس میں رہنے والا ہے اور اس کے لیے رسوا کرنے والا عذاب ہے۔“(اللجنة الدائمة:6290)