کتاب: 477 سوال و جواب برائے نکاح و طلاق - صفحہ 321
ہے کہ رضاعی باپ کی بیویاں اپنے رضاعی بیٹوں کی محارم نہیں ہیں۔ اس کے برعکس تیرا رضاعی بیٹا تو اس کی بیوی کا محرم نہیں بن سکتا،کیونکہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ((وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ)) (النساء:23) ’’اورتمہارےان بیٹوں کی بیویاں جو تمہاری پشتوں سے ہیں۔‘‘ یہ نفس مسئلہ میں ہماری رائے ہے اور جمہور کی رائے کاتو تجھے علم ہی ہے کہ رضاعت مصاہرت میں بھی ایسے ہی اثرانداز ہوتی ہے جیسے نسب میں۔(ابن عثيمين :لقاء الباب المفتوح:55/23) 383۔اس شخص کا حکم جس نے اپنی خالہ کے ساتھ اپنی دادی کا دودھ پیا ہو اور اس کی خالہ نے اس کی ماں کا۔ اگر تو نے اپنی دادی کادودھ پیاہے جو باعث حرمت ہے یعنی پانچ یا زیادہ مرتبہ تو تُو اس کابیٹا ہے اور اس کی بیٹیاں تیری بہنیں ہیں اور اس کی بیٹیوں کی بیٹیوں کاتو ماموں ہے،اس لیے کہ تو اپنی ماں کا رضاعی بھائی ہے تو اسے کیسے پکارتا ہے،ماں یا بہن؟نہیں بلکہ ماں کہہ کر،اسی طرح جس نے تیری ماں کا دودھ پیا ہے وہ تیرا اور تیرے سب بھائیوں کا بھائی ہے،تیری خالاؤں کی بیٹیاں تو ان کا ماموں ہے،کیونکہ تو ان کی ماں کابھائی ہے۔ (ابن عثيمين :لقاء الباب المفتوح:217/41) 384۔رضاعی بیٹے کی بیوی محرمات میں سے نہیں ہے۔ حقیقی بیٹے کی بیوی اس بیٹے کے باپ پر حرام ہے،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے جملہ محرمات میں ذکر فرمایا ہے: ((وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ)) (النساء:23) ’’اورتمہارےان بیٹوں کی بیویاں جو تمہاری پشتوں سے ہیں۔‘‘ جب انسان کا بیٹا شادی شدہ ہوتو اس کی بیوی اس کے باپ کے سامنے بے حجاب ہوسکتی ہے،لیکن رضاعی بیٹا اکثر علماء کے نزدیک تو حقیقی بیٹے کی طرح ہےلیکن شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا انکار کیا ہے اور کہا ہے:رضاعت سسرالی رشتے میں اثر انداز نہیں ہوتی،اوررضاعی بیٹے کی بیوی اس کے لیے اجنبی ہے،اس کے سامنے بے حجاب نہیں ہوسکتی،نہ اس کے ساتھ خلوت اختیار کرسکتی ہے اورنہ ہی اس کے ہمراہ سفر کرسکتی ہے،فرمانِ باری تعالیٰ ہے: