کتاب: 477 سوال و جواب برائے نکاح و طلاق - صفحہ 313
371۔خاوندزبردستی دودھ پی لیتا ہے۔ تیرے خاوند کا یہ فعل ناجائز ہے،اس پر لازم ہے کہ اسے چھوڑ دے اور دوبارہ ایسا نہ کرے،لیکن یہ پینا تجھے اس پر حرام نہیں کرسکتا،اس لیے کہ باعثِ حرمت رضاعت وہی ہے جو دوسال کےاندر اندر ہو۔۔فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ((إنما الرضاعة من المجاعة))[1] ”رضاعت وہ معتبر ہے جس سے بھوک مٹے۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((لَا يُحَرِّمُ مِنْ الرِّضَاعَةِ إِلَّا مَا فَتَقَ الْأَمْعَاءَ فِي الثَّدْيِ وَكَانَ قَبْلَ الْفِطَامِ)) [2] ”وہی رضاعت باعثِ حرمت ہے جو انتڑیوں کو پھاڑ دے اوردودھ چھڑانے کی مدت سےپہلےہو۔“ اس بنا پر تم اس پر حرام نہیں ہوئے۔(اللجنة الدائمة:16644) 372۔عورت خود بخود دودھ پلاتی ہے توکہ اس کا خاوند اسے طلاق دے دے۔ اس رضاعت پر کوئی حرمت یا احکام رضاعت سے کوئی چیز مرتب نہیں ہوگی، بلکہ یہ مناسب اور عبث فعل ہے، رضاعت شرعی، جس پر احکام رضاعت ثابت ہوتے ہیں اور جو باعث تحریم ہے وہ ہے جو بچے کے لیے دو سال کے اندر اندر ثابت ہواور دودھ چھڑانے کی مدت سے پہلے ہو، کیونکہ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
[1] ۔ متفق عليه :صحيح البخاري (2647) ،صحيح مسلم(32/1455) [2] ۔صحيح۔سنن الترمذي ،رقم الحديث(1152)