کتاب: 477 سوال و جواب برائے نکاح و طلاق - صفحہ 301
طرح حج کی استطاعت نہ رکھنے والے کو بھی نادم اور چھوٹا چھوٹا نہیں ہوناچاہیے کیونکہ اس پر اصلاً حج ہے ہی نہیں،میں نے بہت زیادہ لوگوں کو دیکھاہے جن کے پاس حج کی استطاعت نہیں ہوتی وہ اپنے آپ کو گناہگار سمجھتے ہیں کہ ان سے ایک فریضہ رہ گیاہے،تو میں کہتا ہوں آپ مطمئن رہیں پریشان نہ ہوں،آپ پر فرض نہیں ہے۔آپ اور جس نے حج کی ادائیگی کی اللہ عزوجل کے نزدیک برابر ہو،تم معذور ہو،گناہگار نہیں ہو اور دوسرے پرفرض ہے،اس نے ادائیگی کرلی ہے،ہاں یہ علیحدہ بات ہے کہ عمل کرنے والا نہ کرنے والے سے افضل ہے،چاہے وہ معذور ہی ہو۔(ابن عثيمين:نور علي الدرب:12) 355۔مطلقہ حاملہ کا خرچ۔ ایسی حاملہ جسے تین طلاقیں ہوچکی ہیں خاوند کے ذمہ اس کا خرچ نہیں ہے،صرف حمل کے سبب وہ اس پر خرچ کرے گا،اس بنا پر جب تک وہ حمل پر خرچ کرنے کی محتاج ہے،خاوند پر اس کی ذمہ داری ہے،لیکن وضع حمل کے بعد صرف بچے پر خرچ کرے گا،یعنی دودھ پلائی کی اُجرت ،بچے کے کپڑے اور دیگر چیزیں، وضع حمل کے بعد ماں کا کھانا اس کے ذمہ نہیں ہوگا۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے: (وَإِن كُنَّ أُولَاتِ حَمْلٍ فَأَنفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّىٰ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۚ) (الطلاق:6) ”اور اگر وہ حمل والی ہوں تو ان پر خرچ کرو یہاں تک کہ وہ اپنا حمل وضع کرلیں۔“ (ابن عثيمين:نور علي الدرب:147/19)