کتاب: 477 سوال و جواب برائے نکاح و طلاق - صفحہ 299
اور فرمایا: ((وَاعْبُدُوا اللّٰهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ۖ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۗ إِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا)) (النساء:36) ”اور اللہ کی عبادت کرو اوراس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ اور ماں باپ کےساتھ اچھا سلوک کرو اورقرابت والے کے ساتھ اور یتیموں اور مسکینوں اور قرابت والے ہمسائے اور اجنبی ہمسائے اور پہلو کے ساتھی اور مسافر(کے ساتھ) اور(ان کے ساتھ بھی) جن کے مالک تمہارے دائیں ہاتھ بنے ہیں،یقیناً اللہ ایسے شخص سے محبت نہیں کرتا جو اکڑنے والا شیخی مارنے والا ہو۔” اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: ((خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ، وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي))[1] ”تم میں سب سے بہترین وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے سب سے بہترین ہےاورمیں تم میں سب سے زیادہ اپنے گھروالوں کے لیے بہترین ہوں۔“ چنانچہ مسلمان پر واجب ہے کہ اپنے گھر والوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے،لیکن علاج معالجہ کے اخراجات اس طرح خاوند پر واجب نہیں ہیں جس طرح کے خرچ اور رہائش کا وجوب ہے،لیکن بقدر وسعت دیگر اخراجات
[1] ۔صحيح سنن الترمذي(3895) سنن ابن ماجه ،رقم الحديث(1977)