کتاب: 477 سوال و جواب برائے نکاح و طلاق - صفحہ 242
کے فرمان کے عموم سے ہے: ((فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللّٰهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ)) ”پھر اگر تم ڈرو کہ وہ دونوں اللہ کی حدیں قائم نہیں رکھیں گے تو ان دونوں پر اس میں کوئی گناہ نہیں جو عورت اپنی جان چھڑانے کے بدلے میں دیدے۔“ اور بعض علماء نے کہا ہے کہ جتنا خاوند نے دیا ہے اس سے زیادہ نہیں لے سکتا۔آیت ((فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ))کا معنی بھی یہی ہے کہ جتنا خاوند نے بیوی کو دیا ہے، بیوی کو اس چیز کا مکلف نہ ٹھہرایا جائے جوخاوند نے دیا ہی نہیں، خاوند کے زیادہ چیز کے طلب کرنے میں عورت کو نقصان ہے،کیونکہ آدمی نے اس کی شرمگاہ کو حلال کیا اور عورت نے اس کے بدلے حق مہر پایا، تو خاوند نے جو دیا ہے محض وہی لے سکتا ہے، اس سے زیادہ نفع حاصل کرنا تو یہ جائز نہیں،حنبلی مذہب میں مشہور مسئلہ یہ ہے کہ جواز اورعدم جواز کے بین بین ، کیونکہ انھوں نے کہا ہے کہ اگر خاوند اس سے زیادہ کا مطالبہ کرتا ہے جتنا کہ اس نے دیا تھا تو یہ مکروہ ہے۔ انسان کے لیے مناسب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرے، اگر غلطی عورت کی ہو تو جو چاہے مطالبہ کرے اور اگر خطا مرد کی ہو اور عورت اس کی تقصیر کی بنا پر اس کے ساتھ رہنے سے دل برداشتہ ہو جائے تو اس تخفیف کرنا چاہیے اور جوبھی ملے اس پر اکتفا کرنا چاہیے ، پھر عورت کے مالدار اور مفلس ہونے میں بھی فرق ہے، خاوند کو چاہیے کہ اس کا بھی لحاظ رکھے۔ (ابن عثيمين :لقاء الباب المفتوح:8/25)