کتاب: 477 سوال و جواب برائے نکاح و طلاق - صفحہ 226
1۔پہلی چیز کہ طلاق کا ارادہ ہو اور جب بیوی اس ممنوع کام کا ارتکاب کرے گی تو اسے طلاق ہو جائے گی اور اگر اس نے ایسا کوئی کام نہ کیا تو طلاق بھی نہیں ہوگی،اگر قسم سے اس کا ارادہ ایک چیز سے روکنا یا اس کی ترغیب دلانا یا تصدیق یاتکذیب کرنا ہوتو صحیح موقف کے مطابق اس میں قسم کاکفارہ ہو گا، وہ دس مسکینوں کو کھانا کھلائے گا،یا انھیں کپڑے پہنائے گا یا ممکن ہو تو ایک گردن آزاد کرے گا، یعنی اسے ان تین کاموں میں اختیارہو گا، آزاد کرنا یا کھانا کھلانا یا کپڑے پہننا ، اگر وہ ان تینوں میں سے کچھ نہ پائے اور نہ ہی استطاعت رکھتا ہو تو تین دن کے روزے رکھے، یہ اس کی قسم کا کفارہ ہے۔ واللہ اعلم(الفوزان:المنتقيٰ:283) 248۔بالتکرار طلاق کا قصد کرتا ہے اور بالفعل طلاق دینا بھی ثابت ہو جاتا ہے، اس کا کیا حکم ہے؟ جب تین مرتبہ دے لے گا تو عورت اس سے مستقل طور پر جدا ہو جائے گی، اگر تین تک طلاق نہیں دیتا تو وہ ابھی رجعی طلاق ہوگی، عدت کے دوران رجوع کر سکتا ہے۔(الفوزان:المنتقيٰ:284) 249۔ایک اجتماعی برائی کا علاج۔ بلا ضرورت طلاق دینا مکروہ ہے، کیونکہ اس پر بہت زیادہ نقصانات مرتب ہوتے ہیں، مسلمان کے لائق نہیں کہ اس میں تساہل سے کام لے۔ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ((أبغض الحلال عند اللّٰه الطلاق)) ”حلال چیزوں میں سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کو ناپسندیدہ چیز طلاق ہے۔“(الفوزان:المنتقيٰ:285)