کتاب: 477 سوال و جواب برائے نکاح و طلاق - صفحہ 219
236۔طلاق کی قسم اٹھانا لیکن نیت طلاق کی نہ ہو۔ صحیح بات یہ ہے کہ جس نے طلاق کی قسم اٹھائی اور اس کا ارادہ طلاق دینے کا نہیں، بلکہ صرف اتنا مقصد ہے جو قسم سے ہوتا ہے کہ کسی کام کے کرنے پر ترغیب دینا یا اس سے منع کرنا، یا کسی خبر کی تصدیق یا تکذیب تو طلاق واقع نہیں ہوگی، بلکہ یہ قسم متصور ہوگی جس میں کفارہ دینا ہو گا اور اگر اس نے طلاق کی نیت کی ہے تو وہی ہو گا جو اس نے نیت کی۔واللّٰہ اعلم۔ (الفوزان:المنتقيٰ:251) 237۔خاوند نے بیوی کو ایک چیز کے پکڑنے سے منع کیا اور حکم عدولی پر طلاق کی قسم اٹھائی۔ تونے اپنی بیوی پر طلاق کی قسم کھائی، تیرا مقصد اسے کسی کام سے روکنا ہے، مثلاً کسی سامان کو پکڑنے سے وغیرہ وغیرہ، اگر تونے اس کام کے کرنے پر طلاق کو معلق کیا ہے اور نیت یہ ہے کہ جب یہ کام ہوگا تو طلاق ہو جائے گی تو پھر لازماً طلاق ہوگی، اور اگر تیرا مقصد محض روکنا ہے، طلاق کا ارادہ نہیں ہے تو راجح قول کے مطابق قسم ہوگی، تجھ پر قسم کا کفارہ لازم ہوگا جب تونے اس بات کی مخالفت کی جس کا تونے اپنی بیوی سے ارادہ کیا تھا۔کفارہ ایک گردن آزاد کرنا یا دس مسکینوں کو کھانا کھلانا، ہر مسکین کو گندم کاآدھا صاع دینا ہے، یا انھیں کپڑے پہنانا، ہرمسکین کے لیے ایک کپڑا ہے، اگر توان تینوں میں سے کسی کی طاقت نہیں رکھتا ، گردن آزاد کرنے، کھانا کھلانے کی اور نہ ہی کپڑے پہنانے کی تو پھر تو تین دن کے روزےرکھےگا اور یہ تیری طلاق کی قسم کا کفارہ ہو گا، علماء کے دو اقوال میں سے زیادہ صحیح یہی ہے۔فرمان باری تعالیٰ ہے: