کتاب: 477 سوال و جواب برائے نکاح و طلاق - صفحہ 206
یہاں تک کہ فرمایا: ((فَإِن طَلَّقَهَا)) طلاق مردوں کے ہاتھ میں ہے نہ کہ عورتوں کے ہاتھ میں، لیکن یہ بات درست ہے کہ عورتوں کو فسخ نکاح کا اختیار ہے، جب اس کا سبب پایا جائے، مثلاًاس نے کوئی شرط لگائی تھی لیکن اس کی شرط کو جب اس کا سبب پایا جائے، مثلاًاس نے کوئی شرط لگائی تھی لیکن اس کی شرط کو ضائع کیاگیا ، اور شرط بھی جائز تھی،اب عورت کو حق حاصل ہے کہ فسخ کا مطالبہ کرے،اس طرح اگر مردمیں کوئی ایسا عیب ہے جو ازدواجی معاشرت کے لیے مانع ہے، اگر وہ اس عیب کو پسند نہیں کرتی تو مطالبہ فسخ کر سکتی ہے لیکن بغیر شرعی سبب کے فسخ نہیں کر سکتی، سو طلاق عورتوں کی جانب سے بہر حال ممنوع ہے، البتہ عورت کو فسخ نکاح کا اختیار ہے جبکہ اس کے شرعی اسباب پائے جائیں۔(ابن عثيمين :نور علي الدرب:1) 220۔آدمی کے ہاتھ میں طلاق کے اختیار کی حکمت۔ سوال:اسلام نے صرف خاوند کو ہی طلاق کا اختیار کیوں دیا ہے؟جب خاوند اچھے طریقے سے نہیں رہ سکتا پھر اس کا حکم کیا ہے؟پھر کیسے کہا جا سکتا ہے کہ اسلام نے مرد اور عورت کے درمیان برابری کی ہے؟ اولاً:اسلام نے صرف خاوند کے ہاتھ میں طلاق کا اختیار رکھا ہے، اس کی کئی حکمتیں ہیں: 1۔خاوند کے ارادے اور عقل کی پختگی اور قوت ادراک اور کاموں کے انجام پر گہری نظر بخلاف عورت کے،کہ وہ ایسی نہیں۔ 2۔مرد کا اخرجات کا ذمہ دار ہونا،گھر میں اس کاامرونہی اور کنٹرول والا ہونا ہے، مرد گھر کاستون اور خاندان کا پرورش کرنے والا ہوتا ہے۔ 3۔حق مہر خاوند پر واجب ہے، لہذا طلاق بھی اس کے اختیار میں ہے، تاکہ