کتاب: 477 سوال و جواب برائے نکاح و طلاق - صفحہ 203
215۔مشروعیت طلاق کی حکمت طلاق کے مشروع ہونے کی کوئی ایک نہیں۔ بلکہ متعدد حکمتیں ہیں: 1۔عورت اپنے خاوند کو ناپسند کرتی ہے، خاوند جب دیکھے کہ عورت کو اس کے پاس رہنے میں غم، پریشانی اور تنگی کا سامنا ہے تو اسے چاہیے کہ طلب راحت کی خاطر اسے طلاق دیدے ، حکمت کا تقاضا یہی ہے کہ وہ اس بیوی کو قید سے آزاد کردے جو اس کے پاس رہنا نا پسند کرتی ہے۔ 2۔کبھی ایسے ہوتا کہ کہ خاوند بیوی کو ناپسند کرتا ہے، وہ اس کے ساتھ رہنے پر صبر نہیں کر سکتا تو اس کے لیے طلاق مشروع ہے تاکہ اس تکلیف سے نجات پاسکے۔ 3۔عورت میں کوئی ایسی خصلت پائی جاتی ہے جو اس کے لیے قابل برداشت نہیں ہوتی، جس طرح کہ انتہائی زیادہ بد اخلاقی ، تو وہ اسے اپنے پاس نہیں رکھ سکتا۔ اس میں اور بھی حکمتیں ہیں۔(ابن عثيمين :نور علي الدرب: 5) 216۔کتاب وسنت کی روشنی میں طلاق کا شرعی طریقہ۔ طلاق کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ آدمی بیوی کو ایک طلاق دےجبکہ وہ حاملہ ہو یا اسیے طہر میں ہو جس میں ہم بستری نہیں کی۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ((يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ)) (الطلاق:1) ”اے نبی! جب تم عورتوں کو طلاق دو تو انھیں ان کی عدت کے وقت طلاق دو۔“