کتاب: 477 سوال و جواب برائے نکاح و طلاق - صفحہ 194
ہے، بعض اہل علم کا خیال ہے یہ مال اس کے لیے جائز ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ((فَمَن جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّهِ فَانتَهَىٰ فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللّٰهِ ۖ وَمَنْ عَادَ فَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ)) (البقرة:275) ”پھر جس کے پاس اس کے رب کی طرف سے کوئی نصیحت آئے پس وہ باز آجائے، تو جو پہلے ہو چکا وہ اسی کا ہے اور اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے اور جو دوبارہ ایسا کرے تو وہی آگ والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔“ اگر اس نے اس مال میں سے بقدر ضرورت لے لیا اور باقی صدقہ کردیا تو ان شاء اللہ اسے کفایت کرے گا، اور اگر وہ سارے کے سارے مال سے پاک ہوگیا اور نیکی کے راستوں میں خرچ کردیا اورنئے طریقے سے پاک مال کمایا تو یہ زیادہ اچھا اور احتیاط والا ہے، لیکن اگر آدمی مفلس ہو تو اس مال سے فائدہ حاصل کر سکتا ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ((فَلَهُ مَا سَلَفَ)) (البقرة:275) ”جو پہلے ہو چکا وہ اسی کا ہے۔“ ان کفار کو بھی شامل ہے جو مسلمان ہوئے اور پہلے سود کا لین دین لیا کرتے تھے جو کہ حرام ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے یہ نہیں فرمایا کہ سود کا مال واپس کرو،توبہ اور اسلام کے بعد مال ان کےپاس ہی تھا، تو یہ مسلمان بعض اہل علم کے نزدیک کافر کی طرح ہے،کافر سے گھٹیا نہیں ہے،بلکہ جب توبہ تائب ہو گیا تو کافر سے زیادہ لائق توجہ ہے، کیونکہ اس کو مال سے محروم رکھنا اس