کتاب: 477 سوال و جواب برائے نکاح و طلاق - صفحہ 172
176۔طلاق کی نیت سے نکاح کرنا۔ اس مسئلہ میں اہل علم کا اختلاف ہے، بعض کا کہنا ہے کہ طلاق کی نیت سے کی جانے والی شادی نکاح متعہ کہلاتی ہے،کیونکہ نکاح کرنے والے نے مدتِ معینہ کے لیے نکاح کیا ہے،اور فرمان نبوی ہے: ((إنما الأعمال بالنيات وإنما لكل امرئ ما نوى)) [1] ”یقیناً اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور آدمی کے لیے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی۔“ اور اس لیے بھی حلالہ کرنے والا جب ایسی عورت سے نکاح کرتا ہے جسے اس کے خاوند نے تین طلاقیں دے دی ہیں اس کی نیت یہ ہے کہ شادی کے بعد اس عورت کوطلاق دیدے گا،اگرچہ عقد نکاح میں اس کی شرط نہیں لگاتا،محض اس کی نیت ہی ہوتی ہے،وہ محلل ہوگا،لیکن پہلے خاوند کے لیے بیوی حلال نہیں ہوگی،سو یہاں صحتِ عقد میں نیت مؤثر ثابت ہوئی،اس طرح نیت طلاق بھی مؤثر ہوگی،جب وہ اپنے ملک لوٹ جائے گا۔ اور دوسرے اہل علم نے کہا:یہ نکاحِ متعہ نہیں ہے،کیونکہ نکاح متعہ میں شرط عائد کی جاتی ہے کہ وہ اتنی اتنی مدت میں اسے طلاق دیدے گا،یا یہ کہا جاتاہے کہ نکاحِ متعہ کی مدت اتنی اتنی ہے،جبکہ محض طلاق کی نیت کرنے کا معاملہ اور ہے،اسی لیے جب نکاح متعہ میں مدت پوری ہوجائےگی تو بغیر فسخ کرنے کے خود بخود نکاح فسخ ہوجائے گا،یہ بات بھی محض طلاق کی نیت کے خلاف ہے،اس لیے کہ نیت طلاق سے نکاح کرنے والا بعد میں ارادہ بدل کر
[1] ۔ صحيح۔صحيح البخاري رقم الحديث(1)