کتاب: 477 سوال و جواب برائے نکاح و طلاق - صفحہ 161
بن جاتے ہیں ،سو وہ ضرورت محسوس کرتا ہے کہ اس کی دوسری بیوی بھی ہو جس سے اپنی خواہش کوپورا کرلے،بجائے اس کے کہ وہ بے حیائی کا ارتکاب کرتا پھرے،جب تعدد زوجات شرعی ،فطرتی اورعقلی اعتبار سے مباح اور جائز ہے تو سابقہ انبیاءؑ میں بھی اس پر عمل پایاجاتا ہے ،یقیناً ضرورت وحاجت اسے واجب کرتی ہیں،لہذا اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ یہ ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی عملاً ثابت ہے۔ اہل علم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعدد زوجات کی دیگر حکمتیں بھی بیان کی ہیں: 1۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوربعض قبائل کے درمیان تعلقات اور روابط میں وثوق وتقویت جس سے ممکن ہے کہ اسلام کوقوت ملے،اس کی نشر وتبلیغ کا سبب بنے،کیونکہ سسرالی رشتے میں زیادہ محبت اور اخوت پائی جاتی ہے۔ 2۔بعض بیواؤں کو سہارا دینا اور جو ان سے مفقود ہوگیا اس کا نعم البدل دینا،اس سے ان کے دل خوش اور مصائب میں کمی واقع ہوتی ہے،اور اُمت کے سامنے ایسالائحہ عمل پیش ہوتاہے جس سے جہاد وغیرہ میں کام آنے والوں کی بیویوں کےساتھ احسان اور نیکی کے جذبات بیدارہوتے ہیں۔ 3۔نسل کے زیادہ ہونے کی اُمید ،فطرت پر چلنا،اُمت میں اضافہ اور اُمت کی تعمیر وترقی اور نشر واشاعت میں تقویت کافروغ۔ 4۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کردہ تعلیم کی روشنی میں لوگوں کی رہنمائی کرنے والیوں کی کثرت،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نجی زندگی کے متعلق آگاہ کرنے والی معلمات،آپ کی زیادہ شادیاں شہوت کے سبب نہیں تھیں،بلکہ یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی للہ عنہا کے علاوہ کسی بھی کنواری اور چھوٹی عمر کی لڑکی سے شادی نہیں کی،باقی ساری بیویاں بیوہ تھیں،اگر