کتاب: 477 سوال و جواب برائے نکاح و طلاق - صفحہ 158
لیکن چار سے زیادہ بیویوں سے شادی حرام ہے، اس پر کتاب وسنت اور اجماع کی دلیل موجود ہے۔ قرآن مجید کی دلیل فرمان باری تعالیٰ ہے: ((وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَلَّا تَعُولُوا)) (النساء:3) ”اور اگر تم ڈرو کہ یتیموں کے حق میں انصاف نہیں کرو گےتو(اور)عورتوں میں سے جو تمھیں پسند ہوں ان سے نکاح کر لو،دودو سے اور تین تین سے اور چار چار سے، پھر اگر تم ڈرو کہ عدل نہیں کرو گے تو ایک بیوی سے یا جن کے مالک تمھارے دائیں ہاتھ ہیں(یعنی لونڈیاں)۔“ اللہ تعالیٰ نے اجازت دی ہے کہ جو آدمی ایک سے زیادہ شادیاں کرنا چاہتا ہے چاہے تو دودو سےیا تین تین سے یا چار چار عورتوں سے نکاح کر لے،بشرطیکہ ظلم کا خطرہ نہ ہو، لیکن اللہ تعالیٰ نے چار سے زیادہ کی اجازت نہیں دی۔ شرمگاہوں میں اصل تحریم ہے، سو یہ اسی قدر جائز ہو سکتی ہیں جتنی اللہ تعالیٰ نے حد بندی کی ہے اور جتنی اجازت دی ہے، چار سے زیادہ شادیوں کی اللہ تعالیٰ نے اجازت نہیں دی، لہذا وہ اصل تحریم پر ہی باقی ہیں۔ سنت کی دلیل وہ حدیث ہے جسے امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ اور ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ نے قیس بن حارث رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے، انھوں نے کہا: میں مسلمان ہوا، اور میرے نکاح میں آٹھ عورتیں تھیں، میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور یہ بات ذکر کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اختر منهن أربعا)) [1]”ان میں سے چار کا انتخاب کر لے۔“
[1] ۔ صحيح ۔سنن أبي داود ،رقم الحديث (2241) سنن ابن ماجه رقم الحديث (1952)