کتاب: 477 سوال و جواب برائے نکاح و طلاق - صفحہ 157
گا اور خواہش کی تکمیل جائز طریقہ سےکر سکے گا،اور یہ چیز اس کے ضبط نفس کے لیے ممدومعاون ثابت ہو گی اور پیدا ہونے والی خود سری ختم ہو جائے گی، شیطان اسے بہکانہ سکے گا، اور خواہشات اس پر غلبہ نہ پاسکیں گی۔ اور اس کی حکمتوں میں سے ہے کہ کبھی کبھاربیوی بانجھ ہوتی ہے،میاں بیوی کے مابین موافقت ہو جاتی ہے اور خاوند شادی کے لیے راغب ہوتا ہے تاکہ نسل بڑھائے،جسے اللہ تعالیٰ پسند کرتے ہیں اور جس سے زمین کی آبادی اور امت کی قوت وسطوت ہے تو شریعت نے اس کے لیے تعددِزوجات کی اجازت دی ہے، ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اولاد دیں، جس سے اس اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہو جائیں اور زندگی سعادت سے بھرجائے، اس میں اور بھی کئی ایک حکمتیں ہیں۔ خلاصہ یہ کہ تعددِ زوجات اللہ تعالیٰ کی طرف سے مشروع ہے جو کہ بڑا حکمت والا، تعریف والا، انتہائی رحم اور شفقت کرنے والا ہے، جس نے پیدا کیا وہ خوب جانتا ہے اور وہ بڑا باریک بین ہے، جو وہ کرتا ہے اس کے متعلق پوچھا نہیں جا سکتا ہے اور بندوں سے پوچھا جاتا ہے ،بندے کو چاہیے کہ اپنے رب کی قدر پہچانے اور اپنے کوکوتاہی والے اس مرتبہ پر رکھے جو کہ واقعتاً اس کا ہے، جس چیز کا اسے علم نہیں اسے آسمان و زمین کے غیب جاننے والے کی طرف لوٹادے، اور اپنے آپ کوبندہ صرف ان کاموں کے کرنے میں مصروف رکھے جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور ان چیزوں سے اجتناب کرے جن سے اس نے منع کیا ہے۔ (اللجنة الدائمة: 3166) 165۔چار سے زیادہ نکاح کرنے کا حکم۔ آدمی کے لیے جائز ہے کہ ایک سے بڑھ کر چار تک شادیاں کر سکتا ہے، جبکہ بیویوں کے مابین عدل کرنے اور ظلم نہ کرنے پر اسے اپنے آپ پر وثوق ہو،