کتاب: 477 سوال و جواب برائے نکاح و طلاق - صفحہ 155
شادیاں کرے، اگر چاہے تو دودو سے تین تین سے اور چار چار سے، اگر اسے ظلم اور عدم انصاف کا خطرہ نہ ہو، اللہ سبحانہ وتعالیٰ خوب علم رکھنےوالا اور اپنے بندوں کے معاملات سے پوری طرح باخبرہے۔امر تشریع میں کمال حکمت والا ہے، صرف وہی چیز مشروع کرتا ہے جس میں بندوں کی مصلحت ہو اور ان کا معاملہ منظم ہو، اس سے نہیں پوچھا جا سکتا جو وہ کرتا ہے اور بندوں سے پوچھا جاتا ہے، چنانچہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے حضورسر تسلیم خم کرنا اور تشریع اعمال میں معاملہ اس کے سپرد کرنا ایسے ہی ضروری ہے جیسے قضاءو قدر پر ایمان لاناواجب ہے، یہ سب کچھ حکمت کے مطابق ہے، انسان کے علم کی رسائی اس تک ہو یا نہ ہو، انسانی عقلوں میں یقیناً کوتاہی پائی جاتی ہے، جو ان کے درمیان اور بہت زیادہ شرعی احکامات کی حکمتوں کی تفاصیل کےادراک کے درمیان حائل ہو جاتی ہے۔ مسلمانانِ عالم کو چاہیے کہ ملحدین اور شبہات پیدا کرنے والوں سے مناظرہ کے لیے اصل دین وایمان کی طرف رجوع کریں،بایں طور کے کائنات کا رب ہے، جو ابڑا علیم و حکیم اور رؤف و رحیم ہے، اس نے ڈرانے والے، خوشخبری دینے والے اور سچے و امانت دار رسول بھیجے اور ان کی طرف وحی کی جس میں کائنات کی اصلاح اور انسانیت کی سعادت مندی ہے، انبیاء نے واضح طور پر پہنچادیا اور بندوں پر حجت قائم کردی، پھر اگر تو اس کا رب تعالیٰ کے علم، حکمت، عدل پر اور انبیاء کی امانت و تبلیغ پر ایمان ہے تو اس پر حجت قائم ہو جائے گی اور اس پر لازم ہو جائے گا کہ تشریعی امور میں اللہ کے حضور جھک جائے،احکامات کی حکمت کا اسے علم ہو یا نہ ہو،اور اگر وہ مذکورہ بالا اصول کا ہی انکار کردے تو پھر اس کے ساتھ شرعی تفصیلات میں جانے کی ضرورت ہی نہیں۔