کتاب: 477 سوال و جواب برائے نکاح و طلاق - صفحہ 129
((فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا ۗ إِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا)) (النساء:34) ”پھر اگر وہ تمہاری فرمانبرداری کریں تو ان پر(زیادتی کا) کوئی راستہ تلاش نہ کرو،بے شک اللہ ہمیشہ سے بہت بلند،بہت بڑا ہے۔“ اے خاوند! تجھے تو اپنی بیوی پر فوقیت حاصل ہے، تجھے بڑا دین دکھانا تھا، تیری جانب سے ایسی سفلی حرکت ناروا ہے، بعض لوگ تو (اللہ کی پناہ) بیوی کو ایسے سمجھتے ہیں جیسے وہ کوئی خادمہ ہے بلکہ خادم سے بھی بُری حالت کرتے ہیں وہ اسے ہر موقع پر گالیاں دیتے ہیں، ہر مناسبت پر تنگی میں مبتلا کرتے ہیں اور اسے اپنے جیسا انسان بھی نہیں سمجھتے، حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاوندوں کی رہنمائی مثالی طریقے کی طرف کی ہے۔فرمایا: ((لَا يَفْرَكْ مُؤْمِنٌ مُؤْمِنَةً إِنْ كَرِهَ مِنْهَا خُلُقًا رَضِيَ مِنْهَا آخَرَ))[1] یعنی اے خاوند اگر تو اپنی بیوی کی ایک عادت کو ناپسند کرتا ہے تو تو اس کی دیگر عادات کی طرف دیکھ، اگر تونے ناپسند سمجھا ہے کہ اس نے چائے بنانے میں دیر کی یا کھانا صحیح نہیں پکایا تو ان کثیر ایام کی طرف بھی توجہ کر جب اس نے کھانا بھی چائے بھی اچھی بنائی تھی، سو خاوندوں پر واجب ہے کہ اپنی بیویوں کے متعلق اللہ تعالیٰ سے ڈریں اور ان کے حقوق کے پاسبان بن جائیں، جس طرح کہ عورت کو بھی چاہیے کہ وہ بھی خاوند کے حق کی پاسدار بن جائے،جو اللہ تعالیٰ نے واجب قراردیا ہے: ((وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ
[1] صحيح ،صحيح مسلم(61/1469)